ام کلثوم بنت حضرت علیؑ

اُمّ کُلثوم بنت حضرت علیؑ امام حسن، امام حسین و حضرت زینب کبری کے بعد امام علی اور حضرت فاطمہ زہرا کی چوتھی اولاد تھیں۔ تاریخی منابع میں عمر بن خطاب دوسرے خلیفہ کے ساتھ آپ کی شادی کے بارے میں داستانیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ بعض مؤرخین آپ کو واقعہ کربلا میں حاضر خواتین میں شمار کرتے ہیں اور آپ سے منسوب خطبات اور گفتگو بعض منابع میں نقل ہوئی ہیں۔

آپ کے بارے میں نقل ہونے والے بعض واقعات جیسے (واقعہ کربلا میں آپ کی موجودگی) کے بارے میں یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعات کسی اور شخصیت کے بارے میں ہیں اور صرف تشابہ اسمی کی وجہ سے ان واقعات کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہے۔

تعارف

تاریخ ولادت اور حسب و نسب

ام کلثوم کی تاریخ پیدائش میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن شیعہ اور سنی دونوں حضرت علی ؑ و حضرت فاطمہ ؑ کی ام کلثوم نامی بیٹی ہونے پر متفق ہیں۔[1]

آپ کی تاریخ پیدائش کو سنہ 6 ہجری لکھا گیا ہے۔[2] البتہ بعض مؤرخین کسی سال کی تعیین کئے بغیر یوں لکھتے ہیں کہ ان کی ولادت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طیبہ کا دور تھا اور آپ کی وفات سے پہلے پیدا ہوئی ہے۔[3]

شیعہ و اہل سنت مآخذ میں اس حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آپ حضرت علی ؑ و حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد میں کون سے نمبر پر ہے۔ اس حوالے سے شیعہ علماء آپ کو حضرت زینب سے چھوٹی مانتے ہیں؛[4] لیکن اہل سنت، ام کلثوم کو حضرت علی بن ابی طالب کی تیسری اولاد اور حضرت زینب سے بڑی قرار دیتے ہیں۔[5]

کنیت اور القاب

شیخ مفید نے امیرالمؤمنین حضرت علی کی اولاد کو گنواتے ہوئے آپ کا نام زینب صغری ذکر کرتے ہوئے آپ کی کنیت کو ام کلثوم ذکر کیا ہے۔[6] اس کنیت کو پیغمبراکرم نے آپ کو اپنی خالہ ام کلثوم بنت پیغمبر(ص) کے ساتھ زیادہ شباہت کی وجہ سے دیا ہے۔[7] فریقین کے اکثر منابع میں انہیں ام کلثوم کبری سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سید محسن امین اس بارے میں کہتے ہیں: امیر المؤمنین کی تین یا چار بیٹیوں کی کنیت ام کلثوم تھیں:

  1. ام کلثوم کبری بنت فاطمہ
  2. ام کلثوم وُسطی زوجہ حضرت مسلم بن عقیل۔
  3. ام کلثوم صغری۔
  4. زینب صغری جس کی کنیت ام کلثوم ہے۔

سید محسن امین تصریح کرتے ہیں کہ: اگر آخری دو اسم ایک ہی شخصیت کے ہوں تو تین ورنہ چار اشخاص کا نام ام کلثوم ہے۔[8] ان سب باتوں کے باوجود بعض مآخذ میں ام کلثوم بنت علی و فاطمہ کو رقیہ کبری‌ و ام کلثوم صغری کو نفیسہ‌ کے نام سے یاد کیا ہے۔[9]

شوہر اور اولاد

بعض مؤرخین کے مطابق ام کلثوم نے ابتدا میں عُمَر بن خطاب پھر ان کی وفات کے بعد اپنے چچا زاد بھائی عون‌ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی تھی۔ عون کی وفات کے بعد ان کے بھائی محمد‌ پھر محمد کی وفات کے بعد ان کے دوسرے بھائی عبداللہ‌ سے شادی کی۔ [10] مسعودی انہیں لاولد جانتے ہیں۔[11] جبکہ بعض مؤرخین نے ان کے فرزندوں میں زید‌ اور رقیہ کا نام لیتے ہیں جو ہر دو عمر سے ہیں۔[12] ابن عنبہ مسلم بن عقیل کی اولاد کے ضمن میں حمیدہ‌ لڑکی کا نام لیتے ہیں جن کی والدہ کا نام “ام کلثوم بنت علی بن ابیطالب ہے۔[13] سید محسن امین کہتے ہیں: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلم بن عقیل نے اپنی چچا بہن ام کلثوم سے شادی کی تھی لیکن یہ ام کلثوم کبری کا غیر ہے کیونکہ کسی نے بھی اس حوالے سے کوئی خبر نقل نہیں کی ہے پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسلم نے ام کلثوم وسطی سے شادی کی ہے۔[14]

عمر بن خطاب سے شادی کی حقیقت

بعض تاریخی مآخذ کے مطابق ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب نے خلیفہ دوم حضرت عمر سے شادی کی تھی۔[15] اس شادی کی تاریخ ذی القعدہ سنہ 17 ہجری قمری ذکر ہوئی ہے۔[16]

اس کے مقابلے میں بعض شیعہ علماء جیسے کہ، شیخ مفید نے اس نکاح سے انکار کیا ہے اور آقا بزرگ تہرانی نے کئی ایسی کتابوں کا نام لیا ہے جن میں اس نکاح کو رد کیا گیا ہے۔[17]

ماں کا غم

ام کلثوم حضرت زہرا س) کی شہادت کے بعد چہرے پر ایک نقاب ڈال کر گریہ و زاری کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کے روضہ اقدس پر گئیں اور کہا: اے رسول خدا! بتحقیق یہ وقت بالکل اس وقت کی طرح ہے جس وقت ہمیں آپ کی فقداں کی مصیبت آن پڑی تھی۔ اب اس کے بعد ہمارے اور ہماری ماں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہو گی۔[18]

واقعہ کربلا میں شرکت

بعض مقاتل میں ام کلثوم کے کربلا میں حاضر ہونے کے بارے میں تذکرہ موجود ہے۔ جیسے کہ بہت سارے مقامات پر حضرت زینب کے ساتھ ان کا نام لیا گیا ہے اور ان پر ڈھائے جانے والے مصائب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں: امام حسین کی شہادت کے بعد خیموں کو آگ لگاتے وقت آپ کی بہن ام کلثوم کے کانوں سے بالیوں کو چھینا گیا۔[19] ام کلثوم واقعہ عاشورا کے راویوں میں سے ہیں اور کوفہ اور ابن زیاد کے دربار میں آپ نے خطبہ بھی دیا ہے۔ ابن طیفور نے اپنی کتاب میں ام کلثوم سے ایک خطبہ نقل کیا ہے جسے آپ نے اہل بیت کی اسیری کے وقت ارشاد فرمایا تھا۔ [20] علامہ مجلسی نے بھی ابن زیاد کے دربار میں ام کلثوم کی بعض گفتگو اور اشعار نقل کئے ہیں۔[21]

اس کے مقابلے میں بعض مآخذ میں کربلا میں موجود ام کلثوم کے غیر فاطمی ہونے پر تصریح کی گئی ہے۔[22] سید محسن امین اس مسئلہ کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: امیرالمؤمنین حضرت علی کی دو بیٹیوں کا نام ام کلثوم تھا ایک ام کلثوم کبری، حضرت زہرا کی بیٹی تھی جو واقعہ کربلا سے پہلے اس دنیا سے چلی گئی تھی جبکہ دوسری جو واقعہ کربلا میں موجود تھی اور کوفہ میں خطبہ دیا ان کی ماں ایک کنیز تھی اور وہ حضرت مسلم بن عقیل کی بیوی تھی۔[23]

کوفہ میں ام کلثوم کا خطبہ

ام کلثوم منجملہ ان اشخاص میں سے تھے [24] جنہوں نے امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کوفہ میں خطبہ دیا۔[25]

روای کہتے ہیں: امّ کلثوم بنت امیرالمؤمنین اس حالت میں کہ آپ کے رونے کی آواز بلند ہورہی تھی، محمل کے پیچھے سے یہ خطبہ دیا:

اے اہل کوفہ! وای ہو تم پر، کیوں تم نے حسین کو گرفتار کر کے انہیں شہید اور ان کے اموال کو غنیمت میں تقسیم کیا اور ان کے ناموس کو اسیر کیا پھر اس پر گریہ کرتے ہو؟ افسوس ہو تم پر اور ہلاکت اور بدبختی میں تم لوگ گرفتار ہو۔ آیا کیا تم لوگوں کو علم ہے کہ تم کس قدر سنگین گناہ اور جنایت کے مرتکب ہوئے؟ اور کتنے ناحق خون بہائے؟ اور کتنے پردہ نشینوں کو بے پردہ کیا؟ اور کتنے خاندانوں کی زینت و زیور کو تار تار کیا؟ اور ان کے اموال کو غارت کیا ہے؟ تم لوگوں نے ایک ایسی شخصیت کو شہید کیا ہے جس کے مقام و مرتبے تک رسول خدا کے بعد کوئی نہیں پہنچتا۔ تمہارے دلوں سے رحم اٹھا لیا گیا ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کو ماننے والوں کی جیت ہوگی اور شیطان کی اطاعت کرنے والے خسارے میں رہیں گے۔[26]

اس کے بعد انہوں کچھ اشعار پڑھیں جن کا ترجمہ یہ ہے:

تمہاری ماؤں پر وای ہو تم نے میرے بھائی کو شہید کر دیا! عنقریب ایک ایسی آگ میں گرفتار ہو جاؤگے جس کے شعلے بلند ہیں۔ تم لوگوں نے ایک ایسے خون کو پایمال کر دیا ہے جس کے بہانے سے خدا اور اس کے رسول نے منع کیا تھا اور اسے حرام قرار دیا تھا۔ تمہیں جہنم کی آگ کی خوشخبری سناتی ہوں۔ ضرور کل قیامت کے دن تم لوگ، ایسی شدید آگ میں گرفتار ہوگے جس کے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے۔ میں ہمیشہ اپنے بھائی پر گریہ کروں گی۔ پیغمبر(ص) کے بعد اس دنیا میں سب سے افضل اور بہترین شخصیت پر۔ ہاں ہر گز نہ تھمنے والی آنسوں کے ساتھ گریہ کروں گی۔ یہ رونا کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔[27]

راوی کہتا ہے: اس وقت لوگوں کے رونے کی آواز بلند ہو گئی۔ عورتیں اپنے بالوں کو کھول کر ان میں مٹی ڈالتی تھیں اور اپنے چہروں پر مارتیں اور واویلا اور واثبوراہ کی صدائیں بلند کرتی تھیں۔ مرد روتے ہوئے اپنے داڑھی کے بال نوچتے تھے۔ کسی اور موقع پر لوگوں کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔[28]

نقل حدیث

شیعہ مآخذ میں ام کلثوم سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔ عبداللہ مامقانی انہیں خواتین راویوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: “آپ ایک جلیل القدر، فہیم و بلیغ خاتون تھیں اور انہیں ثقات میں سے جانتے تھے۔”[29] ان احادیث کی اکثریت اہل بیت پر آنے والی مصیبتوں کے بارے میں ہیں۔

امام علی(ع) کی شہادت

علامہ مجلسی ایک طولانی حدیث میں لکھتے ہیں:

«ام کلثوم فرماتی ہیں: رمضان کی انیسوں رات کو میں نے اپنے والد محترم کیلئے افطار کی خاطر جو کی دو روٹیاں، دودھ اور نمک دسترخوان پر رکھ دیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد افطار کیلئے حاضر ہوئے۔ آپ دسترخوان پر نگاہ کرکے زور زور سے رونے لگے اور فرمایا… میری بیٹی اگر ان دو کھانوں میں سے ایک کو نہ اٹھایا تو خدا کی قسم کچھ نہیں کھاؤں گا … یوں جو کی روٹی کو نمک کے ساتھ تناول فرمایا۔[30]

شیخ مفید نقل کرتے ہیں:

وہ رات جس کی صبح کو علی(ع) شہید ہوئے، صبح تک آپ بیدار رہے۔ جب ام کلثوم نے وجہ معلوم کی تو آپ نے فرمایا: جب یہ صبح طلوع ہوگی تو مجھے شہید کیا جائے گا۔ ام کلثوم نے بابا کو منع کیا لیکن آپ نے فرمایا موت سے کسی کو فرار نہیں ہے یہ کہہ کر گھر سے مسجد کی طرف نکل پڑے۔[31]

اسی طرح امیرالمؤمنین کی شہادت کے موقع پر “ام کلثوم” نے روتے ہوئے ابن ملجم سے خطاب کیا: وائے ہو تم پر! خداوند عالم تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل اور رسوا کرے اور تمہارا ٹھکانا جہنم قرار دے۔[32]

عبدالکریم بن احمد بن طاووس حلی نے شیخ صدوق سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ “ام کلثوم” نے حضرت علی(ع) کی تشییع اور تدفین کے حوالے سے اپنے فرزندوں کو کرنے والی وصیت کے بعض حصوں کو روایت کی ہے:

… ام کلثوم فرماتی ہیں: دفن کے وقت قبر کھودی گئی۔ مجھے معلوم نہیں میرے بابا کو زمین میں دفن کیا گیا یا آسمانوں میں لے جایا گیا۔ ناگہان ایک تسلیت آمیز آواز کانوں میں آئی اور کہا: خدا آپ کو اپنی حجت کے غم اور عزاداری میں تسلیت دیتا ہے۔[33]

واقعہ عاشورا اور اس کے بعد کے واقعات

  1. ابن طاووس کہتے ہیں: جب امام حسین آخری وداع کیلئے آئے تو “ام کلثوم” نے فریاد بلند کی اور کہا: یا ابا عبداللہ! آپ کو ہاتھ سے دینے کی مصیبت کے بعد ہمیں خدا موت دے دے۔ امام(ع) نے ام کلثوم، حضرت زینب اور رباب کو تسلی دی۔[34]
  2. اسیری کے وقت جب کوفی اطفال حسینی کیلئے کھانا لے آئے تو “ام کلثوم” نے فریاد بلند کی:‌ اے اہل کوفہ ہم (اہلبیت پیغمبر) پر صدقہ حرام ہے۔[35]
  3. ایک حدیث کے مطابق جب کاروان اسرائے آل محمد شام پہونجی تو “ام کلثوم” نے شمر سے کہا کہ شہداء کے سروں کو اسیروں کے درمیان سے دوسری سمت لے جاؤ تاکہ لوگوں کی نظریں اس سمت چلی جائے اور ہم پر نظریں نہ پڑیں۔[36]

تاریخ و کیفیت وفات

آپ کی تاریخ وفات اور اس کی کیفیت میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

  1. اکثر مآخذ میں آپ اور آپ کے بیٹے زید کی وفات کو ایک ساتھ قرار دیا ہے یہاں تک کہ دونوں کی نماز جنازہ بھی ایک ساتھ ادا کی گئی۔[37]
  2. بعض مؤرخین نے ان کی وفات کو معاویہ کے دور حکومت میں تقریبا سنہ 50 ہجری قمری میں ذکر کیا ہے۔[38]
  3. بعض کہتے ہیں: ان کی وفات عبدالملک بن مروان کے دور حکومت (۷۳ – ۸۶ ق) میں ہوئی ہے۔ٰ[39]
  4. مقریزی لکھتے ہیں: جب آپ عون بن جعفر کی زوجیت میں تھیں اسی وقت اس دنیا سے چلی گئی۔[40]
  5. ابن عبدالبر، ان کی وفات کو امام حسن (ع) کی امامت کے دوران ذکر کرتے ہیں۔[41]
  6. ابن طیفور نیز ان کی وفات کو سنہ 61 ہجری واقعہ کربلا کے وقت قرار دیتے ہیں۔[42]

وفات کی کیفیت

آپ کی وفات کے بارے میں آیا ہے کہ آپ اور آپ کے بیٹے زید کسی بیماری[43] یا زہر کھلانے کی وجہ سے[44] ایک ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔

مدفن

عمادالدین طبری کہتے ہیں:
منقول ہے کہ امام حسین (ع) کی بہن ام کلثوم نے شام میں وفات پائی اور وہیں دفن ہیں۔[45]

ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں:
شام سے ایک فرسخ کے فاصلے پر ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی بیٹی کی قبر ہے۔[46]

یاقوت حموی لکھتے ہیں:
ام کلثوم کی قبر شام، دمشق میں ہے۔[47]

ابن عساکر اس بارے میں لکھتے ہیں:
یہ قبر جو دمشق کے مضافات میں ہے ام کلثوم بنت علی بن ابیطالب (ع) کی ہے لیکن یہ حضرت فاطمہ (س) کی اولاد نہیں ہے .. آپ مدینہ میں قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔[48]

بعض دیگر مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ قبر، حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی بیٹی حضرت زینب (س) کی ہے جن کی کنیت ام کلثوم ہے۔[49]

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ج۱، ص۳۵۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۶۳؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۱۳؛ تاریخ طبری، ج۴، ص۱۱۸.
  2. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۵۰۰؛ دخیل، اعلام النساء، ص۲۳۸.
  3. ابن حجر، الاصابہ، ج۸، ص۴۶۴؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۹۵۴.
  4. مفید، الارشاد، ج۱، ص۳۵۴؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج۳، ص۸۹.
  5. سیرہ ابن اسحاق، ص۲۴۷؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۵۰۰.
  6. مفید، الارشاد، ج۱، ص۳۵۴.
  7. قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، ص۲۲۸.
  8. امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۴۸۴.
  9. علوی، المجدی، ص۱۷و ۱۸؛ زبیدی، تاج العروس، ج۱۵، ۸۱۳.
  10. طبقات ابن سعد، ج۸، ص۴۶۲.
  11. مسعودی، مروج الذہب، ج۱، ص۲۹۹.
  12. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۹، ص۴۸۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۹۰.
  13. ابن عنبہ، عمدہ الطالب، ص۳۲.
  14. امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۴۸۴.
  15. کلینی، کافی، ج۵، ص۳۴۶؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ج۸، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۳۹۷؛ مفید، المسائل العکبریہ، ص۶۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۸۹؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۵، ص۶۱۴.
  16. نہایہ الارب، ج۱۹، ص۳۴۷.
  17. مدخل ام کلثوم کا عمر سے نکاح، نکاح کے مخالفین]
  18. نیشابوری، روضہ الواعظین، ص۱۵۲.
  19. مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۶۰.
  20. بلاغات النساء، ص۲۳.
  21. مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۱۲ – ۱۱۵.
  22. بری، الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ، ص۴۵.
  23. امین، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۲۷. ج۳، ص۴۸۴.
  24. امام سجاد، حضرت زینب اور فاطمہ بنت امام حسین نے بھی کوفہ میں خطبہ دیا: سید بن طاووس، لہوف، ص۱۸۱).
  25. ر.ک: ابن طاووس، لہوف (۱۳۷۸ش)، ص۱۸۱.
  26. مجادلہ: ۱۹.
  27. قَتلْتُم أخی فویلٌ لأُمّکم * سَتُجزَونَ ناراً حرُّہا یتَوقَّدُسَفکتُم دِماءً حَرَّمَ اللّہ سَفکہا * وَحَرَّمَہا القُرآنُ ثُمّ مُحمّدٌألا فَابشِرُوا بِالنّارِ إنّکمُ غَداً * لَفی سَقَرٍ حَقّاً یقیناً تُخَلَّدُواوَإنّی لأبکی فی حَیاتی علی أخی * عَلی خَیرِ مَن بَعَد النّبی سَیولَدُبِدَمعٍ غَریزٍ مُستہلٍّ مُکفکفٍ * علَی الخَدِّ منّی دائماً لَیس یحمدُ
  28. سید بن طاووس، لہوف (۱۳۷۸ش)، ص۱۸۴.
  29. مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۷۳.
  30. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۲، ص۲۷۶ – ۲۷۸.
  31. مفید، الارشاد، ج۱، ص۱۶.
  32. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۲، ص۲۸۹.
  33. عبدالکریم بن احمدابن طاووس حلی، فرحہ الغری فی تعیین قبر امیر المؤمنین علی(ع)، ۶۳ و ۶۴.
  34. ابن طاووس، لہوف، ص۸۲.
  35. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۱۴.
  36. ابن طاووس، لہوف، ص۱۷۴.
  37. زبیدی، تاج العروس، ج۱۵، ص۸۱۳.
  38. صفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۵، ص۲۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۴۸۵.
  39. صنعانی، المصنف، ج۶، ص۱۶۴.
  40. مقریزی، امتاع الاسماع، ج۵، ص۳۷۰.
  41. ابن عبدالبر، استیعاب، ج۴، ص۱۹۵۶.
  42. ابن طیفور، بلاغات النساء، ص۲۳ و ۲۴.
  43. بغدادی، المنمق، ص۳۱۲.
  44. صنعانی، المصنف، ج۶، ص۱۶۴.
  45. طبری، کامل بہایی، ج۲، ص۳۷۱.
  46. ابن بطوطہ، الرحلہ، ج۱، ص۱۱۳.
  47. یاقوت، معجم البلدان، ج۳، ص۲۰.
  48. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۲، ص۳۰۹.
  49. البیطار، حلیۃ البشر، ج۲، ص۵۰.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا.
  • ابن اسحاق، محمد، سیرہ ابن اسحاق، قم، دفتر تاریخ و مطالعات اسلامی، ۱۴۱۰ ہ‍.
  • ابن بطوطۃ، محمد بن عبد اللہ، تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار وعجائب الأسفار، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۵ ہ‍.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۷۶ ہ‍.
  • ابن طاووس، عبدالکریم، فرحہ الغری فی تعیین قبر امیر المؤمنیین علی(ع)، تحقیق سید تحسین آل شبیب موسوی، بی‌جا، مرکز الغدیر، بی‌تا.
  • ابن طیفور، ابوالفضل بن ابی طاہر، بلاغات النساء، قم، مکتبہ بصیرتی، بی‌تا.
  • ابن عبدالبر، احمد بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ ہ‍.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ ہ‍.
  • ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدہ الطالب فی انساب آل ابیطالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۸۰ ہ‍.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی‌تا.
  • بری، محمد بن ابی بکر، الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ، دمشق، مکتب ہ النوری، ۱۴۰۲ ہ‍.
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۰ ہ‍.
  • البیطار، عبد الرزاق، حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، بی‌تا..
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۳۹۹ ہ‍.
  • دخیل, علی محمدعلی, اعلام النساء، دارالاسلامیۃ, بیروت، ۱۴۱۲ ہ‍.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۱۳ ہ‍.
  • زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ ہ‍.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، تہران، نشر جہان، ۱۳۴۸ ش.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، لہوف، ترجمہ عبدالرحیم عقیقی بخشایشی، چ۵، قم، دفتر نشر نوید اسلام، ۱۳۷۸ش.
  • صفدی، صلاح الدین خلیل، الوافی بالوفیات، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۴۲۰ ہ‍.
  • صنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق شیخ عبدالرحمن اعظمی.
  • طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ ہ‍.
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، ۱۴۰۳ ہ‍.
  • طبری، عمادالدین، کامل البہائی، قم، المکتبہ الحیدریہ، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۴ ش.
  • عسقلانی، ابن حجر احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ ہ‍.
  • علوی، محمد بن علی، المجدی فی انساب الطالبین، قم، مکتبہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۹ ہ‍.
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، تہران، مکتبہ الصدر، بی‌تا.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش.
  • مامقانی، عبداللہ بن محمد، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، ب نا، ۱۳۵۲ ہ‍.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ ہ‍.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، مصر، مکتبہ السعادہ، ۱۳۷۷ ہ‍.
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ ہ‍.
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المسائل العکبریہ، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ ہ‍.
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، تحقیق عبدالحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب، ۱۴۲۰ ہ‍.
  • نیشابوری، محمد بن الفتال، روضہ الواعظین، قم، الشریف الرضی، بی‌تا.
  • نویری، شہاب الدین احمد، نہایہ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، دارالکتب و الوثائق القومیہ، ۱۴۲۳ ہ‍.
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، نجف، المکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۴ ہ‍.
تبصرے
Loading...