ام ابیہا

یاُمّ اَبیہا عربی زبان کا ایک مرکب لفظ ہے جو حضرت فاطمہ کی کنیت ہے۔ نیز عرب کی بعض خواتین بھی ام ابیہا کے نام سے موسوم ہوئی ہیں۔

اس مضمون میں شامل موضوعات

مستند

ام ابیہا حضرت فاطمہ کی مشہور کنیت ہے۔[1]امام صادقؑ نے اپنے والد ماجد امام باقرؑ کے حوالے سے فرمایا کہ “ام ابیہا حضرت زہراؑ کی کنیت ہے۔[2]
حضرت فاطمہ کے بعد بعض خواتین کا نام ام ابیھا تھا جیسے عبداللہ بن جعفر بن ابیطالب کی ایک بیٹی کا نام بھی “ام ابیہا” تھا۔[3]
محمد بن جریر طبری کی روایت کے مطابق حضرت امام کاظمؑ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام “ام ابیہا” رکھا تھا۔[4]

کفعمی نے ام ابیہا کی بجائے ام ابنیہا (اپنے دو بیٹوں کی ماں) حضرت فاطمہ کی کنیت ذکر کی ہے۔ لہذا بعض نے اسی کے ام ابیھا کو غلط کہا ہے[5] جبکہ حضرت فاطمہ کی ام اببہا کنیت اہل سنت و شیعہ مصادر میں کسی شک و تردید کے بغیر منقول ہوئی ہے۔[6]

معنا

وضعی لحاظ سے اگرچہ لفظ ام کے لیے، اصل، مرجع، جماعت اور دین چار معانی مذکور ہیں لیکن معنوی لحاظ سے یہ قریب المعانی ہیں۔[7]
ام ابیہا کا لفظی ترجمہ اپنے باپ کی ماں ہے۔ عربی زبان میں لفظی اعتبار سے ام یا اب سے شروع ہونے والے الفاظ کو کنیت کہا جاتا ہے۔[8] جیسے رسول اکرم کی کنیت ابو القاسم ہے۔ لیکن کبھی ایسے الفاط کو معنا کے لحاظ سے لقب بھی کہتے ہیں۔[9]

  • اصل اور مبدا (جڑ اور بنیاد) کے معنا کے پیش نظر آپ بنیاد ولایت ہیں۔ چونکہ یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا۔ [10]
  • حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کے بعد آپ نے ایک والدہ کی طرح گھر سنبھالا اور ایک والدہ کی طرح آپ صلی الله علیہ و آلہ کی دیکھ بھال کی۔ اس لئے ام فرمایا۔[11]
  • یہ نہایت محبت کے اظہار کیلئے ہے۔ کیونکہ انسان جب اپنی اولاد یا غیر سے شدید محبت کرتا ہے تو اس کے اظہار کیلئے وہ مؤنث میں یا اماہ اور مذکر میں اس کا اظہار یااباہ کہہ کر کرتا ہے۔ یہ عرف میں رائج ہے۔[12]
  • خدا نے ازواج رسول اللہ کو شرف و فضیلت دیتے ہوئے ام المومنین سے تعبیر کیا ہے جس سے حضرت فاطمہ سمیت دیگر خواتین پر ان کی فضیلت و برتری بیان ہوتی ہے۔ رسول خدا نے یہ کنیت رکھ کر بیان کیا کہ اے ازواج اگر تم ام المومنین ہو تو فاطمہ ام النبی،ام المصطفی و ام ابیہا ہے۔[13]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. طبرانی، المعجم الکبیر22/398، دار إحیاء التراث العربی۔
  2. ابن أیوب الباجی المالكی، التعدیل والتجریح، ج 3، ص 1498-1499؛ أبوالفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 29؛ ابن المغازلی، مناقب علی بن أبی طالبؑ، ص 267؛ بحار الانوار، ج 43، ص 19.ابن عبد البر،الاستیعاب،4/189،دار الجبل۔
  3. تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج 2، ص 292.
  4. تاریخ طبری، ترجمہ پایندہ، ج 14، ص 5986.
  5. ابو معالی محمد بن محمد ابراہیم کلباسی،الرسائل الرجالیہ2/194؛ دار الحدیث۔
  6. الاستیعاب، ابن عبد البر4/1899۔التعدیل و الترجیح 3/1498۔اسد الغابہ، ابن اثیر5/520۔ تهذیب الكمال ،مزی35/247۔سی اعلام النبلاء،ذہبی2/119 ش18۔المعجم الکبیر،طبرانی،22/37.مناقب ابن شہر آشوب1/140۔
  7. ابن فارس، مقاییس اللغہ،1/21، دار الفکر۔
  8. عمید، فرهنگ فارسی عمید، ج۲، ص۱۶۵۹، ذیل واژه «کنیہ». بدیع یعقوب، موسوعہ علوم اللغہ العربیہ، ۲۰۰۶م، ج۷‌، ص۴۳۱.
  9. دیکھیں:عبد الواحد، موسوعہ بطل العلقمی ج:2 ،12/13؛موسسہ اعلمی لمطبوعات،بیروت لبنان۔
  10. ام ابیہا
  11. ام ابیہا
  12. تبریزی انصاری، اللمعۃ البیضاء،123، دفتر نشر الهادی – قم – ایران
  13. لشیخ محمد فاضل المسعودی، الأسرار الفاطمیّۃ جلد : 1 صفحہ : 273؛ مؤسسۃ الزائر فی الروضۃ المقدسۃ ـ لحضرۃ فاطمۃ المعصومۃ علیہ السلام للطبعہ والنشر

مآخذ

  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403 ہجری۔
  • ابن أیوب الباجی المالكی، سلیمان بن خلف بن سعد ، التعدیل والتجریح، ج 3، تحقیق : الأستاذ أحمد البزار ناشر : وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ – مراكش.
  • ابن المغازلی، مناقب علی بن أبی طالب ؑ، انتشارات سبط النبی (ص)، 1426ھ/ 1384 ہجری شمسی۔
  • أبوالفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق، تقدیم وإشراف: كاظم المظفر، النجف الأشرف: منشورات المكتبۃ الحیدریۃ ومطبعتہا، 1385ھ / 1965عیسوی۔
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، تہران: بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 2536پہلوی(نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبہ اہل بیتؑ نسخہ دوم)۔
  • الطبری، محمدبن جریر، تاریخ الطبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، ناشر: اساطیر، 1369شمسی ہجری (نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبہ اہل بیتؑ نسخہ دوم)۔
تبصرے
Loading...