امام جماعت

امام جماعت یا پیش نماز سے مراد وہ شخص ہے جس کی اقتدا کرتے ہوئے دوسرے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ فقہی اعتبار سے نماز جماعت کی برقراری کیلئے امام جماعت میں کچھ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان شرائط میں سے بلوغ، عقل اور عدالت زیادہ اہم ہیں۔

امام جماعت کے انتخاب میں امام معصومؑ سب پر مقدم ہیں۔ معصومؑ کی عدم موجودگی میں امام راتب، عادل حاکم کی طرف سے منصوب امیر، صاحب خانہ اور سادات[نوٹ 1] مقدم ہیں۔ اسی طرح متاخر فقہا امام جماعت کے عالم دین ہونے کو اس کی افضل شرائط میں سے سمجھتے ہیں۔

شرائط

شیعہ فقہ میں امام جماعت کیلئے درج ذیل شرائط مذکور ہیں:

جن افراد کا امام جماعت ہونا مکروہ ہے:

  • مشہور قول کی بنا پر مقیم کا مسافر کیلئے اور مسافر کا مقیم کیلئے امام جماعت ہونا۔[8]
  • جذام اور برص کے مریض کا امام جماعت ہونا۔[9]
  • جس پر شرعی حد جاری ہوئی ہو اور اسکے توبہ کرنے کے بعد امام جماعت ہونا۔[10]
  • ایسا انسان جو کسی عذر کے بغیر مختون نہ ہو۔[11]
  • متاخرین میں مشہور قول کی بنا پر دیہاتی کا غیر دیہاتی کیلئے امام جماعت ہونا۔[12]
  • تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا با وضو شخص کیلئے امام جماعت ہونا۔[13]
  • ایسے شخص کا امام جماعت ہونا جس سے مقتدی خوش نہ ہوں۔[14]

بعض فقہا نے قیدی، جولاہے، حجام، دباغ (چمڑا پکانے ، صاف کرنے یا رنْگنے کا کام یا پیشہ کرنے والا)، پیشاب اور پاخانے کو روکے ہوئے شخص کی امامت کروانا مکروہ ہے نیز ناقص[نوٹ 5] العضو کا کامل اور کامل کا کامل تر کیلئے امام جماعت ہونا مکروہ ہے۔[15]

احکام

امام جماعت، مامومین(امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے) اور نماز میں سے ہر ایک کے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔ان میں سے کچھ احکام ذکر کئے جا رہے ہیں:

  • اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ شرائط صحت نماز جیسے ارکان نماز میں خلل،طہارت کا نہ ہونا،فسق یا کفر کا ہونا وغیرہ میں سے کسی ایک شرط کے نہ ہونے کی وجہ سے امام کی نماز باطل تھی تو ایسی نماز کا صحیح ہونا مشہور ہے۔[16]
  • نماز کے بعد پتہ چلے کہ امام نے بلوغ و عقل جیسی شرائطِ امام جماعت کی عدم موجودگی کے ساتھ نماز پڑھائی تھی تو فقہا کے درمیان مامومین کی اس نماز کے صحیح ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[17]
  • نماز کے دوران امام کی نماز کے باطل ہونے یا شرائط امام جماعت کے فقدان کی وجہ سے نماز کے باطل ہونے کا پتہ چل جائے تو ایسی نماز کے صحیح ہونے میں اختلاف نظر ہے اور بعض کے نزدیک مامومین کو دوبارہ نماز پڑھنا چاہئے۔[18] جبکہ بعض کے نزدیک نمازی فرادا(یعنی تنہا نماز پڑھنے) کی نیت کر کے اپنی نماز جاری رکھے۔[19]
  • نماز جماعت کے دوران امام جماعت کے مر جانے یا بیہوش ہو جانے کی صورت میں جائز ہے کہ مامومین میں سے واجد شرائط امام جماعت میں سے کوئی ایک شخص نماز کو اختتام تک پہنچائے۔[20]
  • اثنائے نماز میں وضو کے باطل ہونے یا ناک میں سے خون بہنے جیسے ضروری مواقع پیش آنے کی صورت میں امام جماعت نماز کو مکمل کروانے کیلئے کسی دوسرے شخص کو اپنی جگہ کھڑا کر سکتا ہے۔[21]

بہتر اور برتر ہونا

شیعہ فقہ کے مطابق نماز جماعت کے لئے امام کے انتخاب میں امام معصوم (ع) سب پر مقدم ہیں۔[22] امام معصوم کی عدم موجودگی میں استحباب یا افضلیت عمل[23] کی بنا پر افراد کی ترتیب:

  • امام راتب (وہ شخص جو دائمی اور مستقل طور پر کسی مسجد یا جگہ کا امام جماعت ہو)
  • امام عادل کی طرف سے منصوب عمال
  • صاحب خانہ اپنے گھر میں دوسروں پر مقدم ہے۔[24]
  • مختلف جہات سے مساوی افراد کی موجودگی میں سادات اور ہاشمی ترجیح رکھتے ہیں۔[25]

دو نفر یا چند نفر کی امامت میں اختلاف کی صورت میں بعض فقہا کی تصریح کے مطابق مامومین کی طرف سے منتخب امام مقدم ہے۔ مامومین کی طرف سے امام جماعت میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں ان کے ذاتی کمالات اور امتیازات کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ ان کمالات، ان کی ترتیب اور ان کے باہمی تقدم و تاخر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قول مشہور کی بنیاد پر، اقرا (جس کی قرائت اچھی ہو) افقہ (جو مسائل و احکام شرعی کو زیادہ جانتا ہو) پر مقدم ہے۔ افقہ دوسرے تمام امتیازات جیسے ایمان میں سبقت، عمر میں بڑے ہونے اور زیادہ حسین پر مقدم ہے۔ ہر لحاظ سے مساوی ہونے کی صورت میں ان کے درمیان قرعہ سے فیصلہ ہوگا۔ [26]

مستحبات

سید ابو الحسن اصفہانی نماز جماعت پڑھاتے ہوئے۔

بعض امور کی انجام دہی اور اسکی رعایت مستحب ہے۔ مثلا:

۱۔ صف کے درمیان میں کھڑے ہونا۔[27]

۲۔ نماز کے افعال کی بجا آوری میں کمزور ترین افراد کی رعایت کرنا مگر یہ کہ وہ لوگ خود نماز کے طولانی ہونے کے خواہش مند ہوں۔[28]

۳۔ نماز کی قرائت اور ذکر معمول کے کے مطابق اس قدر بلند آواز میں پڑھے کہ لوگ سن سکیں۔[29]

۴۔ نماز جماعت میں شریک ہونے کا قصد رکھنے والوں کے لئے رکوع کو عام وقفہ سے دو برابر طول دینا۔[30]

۵۔ نماز ختم ہونے کے بعد مامومین کی نماز کے ختم ہونے تک اپنی جگہ سے نہ اٹھنا۔[31]

غیر عالم دین کی اقتدا کرنا

معاصر فقہا امام جماعت کے انتخاب میں عالم دین ہونے کے مقدم ہونے کے قائل ہیں۔ ان میں سے بعض کے نظریات یہ ہیں:

  • امام خمینی: غیر عالم کی اقتدا اس صورت میں جائز ہے جب عالم امام جماعت تک رسائی نہ ہو۔[32]
  • آیت اللہ صافی گلپائگانی: اصل مسئلہ کو یعنی حتی عالم اور مجتہد کے لئے غیر عالم و غیر مجتہد کی اقتدا کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن مساجد کی جماعت کے سلسلہ میں زیادہ ثواب کی وجہ سے عالم دین کی اقتدا کرنے، اسی طرح سے اس روش پر سیرت کے موجود ہونے اور نیز دوسرے مصالح کے پیش نظر عالم دین کی امامت کی نصیحت کرتے ہیں۔[33]
  • آیت اللہ خامنہ ای: نصیحت کرتے ہیں کہ عالم دین تک رسائی ہونے کی صورت میں غیر عالم کی اقتدا نہ کی جائے۔[34]
  • آیت اللہ مکارم شیرازی: عالم دین تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں شرائط رکھنے والے غیر عالم دین کی امامت کو بلا اشکال سمجھتے ہیں۔ واجد شرائط عالم دین تک رسائی ک صورت میں احتیاط یہ ہے کہ واجد شرائط عالم دین مقدم ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالتراث، ص۴۸.
  2. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۴
  3. یزدی، عروۃ الوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۰.
  4. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۴
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۳۷.
  6. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۰.
  7. یزدی، عروۃ الوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۰.
  8. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۷۴.
  9. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۴.
  10. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۸۳.
  11. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۷.
  12. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۸۷.
  13. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۴
  14. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۷.
  15. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۹۰-۳۹۱ ؛ یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۴
  16. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۷؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۴،ص۲.
  17. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۴،ص۱۱.ص۹-۱۰.
  18. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۴،ص۱۱.
  19. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالتراث، ص۴۸؛ ؛ یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۵۹۸.
  20. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۶۸-۳۶۹.
  21. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۶۸-۳۶۹.
  22. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، آل‎البیت(ع)، ج ۴، ص ۳۰۵
  23. خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۷؛ زدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۳.
  24. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۴۸.
  25. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۵۳.
  26. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۵۷-۳۶۶.
  27. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۵.
  28. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۵.
  29. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دارالتراث، ص۴۸.
  30. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، آل‎البیت(ع)، ج ۴، ص ۳۲۸.
  31. یزدی، عروۃالوثقی، مرکز فقہ الائمۃ الأطہار، ج۱،ص۶۰۶.
  32. سامانہ اطلاع‎ رسانی پرتال امام خمینی
  33. نظر آیت اللہ صافی گلپایگانی پیرامون امام جماعت غیر روحانی
  34. اجوبہ الاستفتاءات
  35. پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی.
  1. اعمال کی افضلیت یا استحباب کی بنا پر
  2. غیر بالغ ممیز بچہ مشہور قول کی بنا پر نماز جماعت کیلئے امام نہیں بن سکتا ہے۔جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۲۵.
  3. پس درج ذیل افراد امامت کیلئے صحیح نہیں ہیں:
    • قرائت نماز سے ناواقف شخص۔
    • گنگا شخص بول سکنے والوں کیلئے امام نہیں بن سکتا۔
    • ایک حرف کو دوسرے حرف کے ساتھ تلفظ کرنے والا جیسے سین کو شین کہنے والا۔نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۳، ص۳۳۴.

  4. پس بیٹھ کر نماز پڑھنے والا امام جماعت نہیں ہو سکتا۔خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۳۷۹، ج۱،ص۲۷۵؛
  5. علمی،جسمانی یا کوئی اور نقص ہو۔

مآخذ

  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، موسسہ آل‎البیت(ع) لإحیاء التراث، ایران، بی‌تا.
  • خ‍م‍ی‍ن‍ی‌، روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، دار العلم، ایران، ١٣٧٩.
  • خمینی، روح اللہ، استفتائات، قم، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۷۲ش.
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ في فقہ الإمامیۃ، محقق: علی اصغر و محمدتقی: مروارید، بیروت، دار الاسلاميہ؛ دار التراث.
  • صافی گلپایگانی، نظر آیت‌اللہ‌ صافی گلپایگانی پيرامون امام جماعت غير روحانی، سایت ابنا، تاریخ درج مطلب: ۱۵ آبان ۱۳۹۱ش، تاریخ بازدید:۱۰ مہر ۱۳۹۶ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، محقق: محمدباقر بہبودی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، ایران، ١٣٨٧.
  • محقق حلی، جعفر بن حسین، المختصر النافع فی فقہ الامامیہ، قم، مؤسسہ المطبوعات الدینیہ، ۱۴۱۸ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ق.
  • یزدی، محمد کاظم، عروۃ الوثقی (مع تعلیقات الفاضل اللنکراني)، تعلیق: محمد فاضل موحدی لنکرانی، محقق:مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، قم، مرکز فقہ الأئمۃ الأطہار (ع)، ایران.
  • سامانہ اطلاع‎رسانی پرتال امام خمینی، تاریخ درج مطلب:۲۸ خرداد ۱۳۹۴ش، تارخ بازدید: ۱۰ مہر ۱۳۹۶ش.
  • پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریح بازدید:۱۰ مہر ۱۳۹۶ش.
تبصرے
Loading...