اصحاب سبت

اصحاب سبت بنی اسرائیل کا ایک گروہ تھا، قرآن کی آیات کے مطابق خدا کی نافرمانی اور ہفتہ والے دن مچھلی کا شکار کرنے کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہوئے۔ اکثر روایات کے مطابق اصحاب سبت کا ماجرا حضرت داود(ع) کے زمانے میں اور شہر ایلہ میں پیش آیا۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

سبت کے لغوی معنی کسی کام سے ہاتھ روکنا اور آرام کرنا ہیں۔[1] یہ لفظ عبرانی زبان میں ہفتے والے دن کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ [2] سبت یہودیوں کا مذہبی دن ہے اور ان کے یہاں اس دن کا خاص احترام ہے۔ توریت اور تلمود میں، بعض غیر عبادی کام جیسے کہ تجارت، مچھلی اور پرندوں کا شکار وغیرہ کو اس دن انجام دینے سے منع کیا گیا ہے۔[3]

بعض روایات کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ(ع) کے وسیلے سے یہود سے چاہا تھا کہ جمعہ والے دن کا احترام کریں اور اس دن غیر عبادی امور کو انجام نہ دیں لیکن یہودیوں نے ہفتے والے دن کا احترام کرنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن شکار کو ان پر حرام کر دیا۔ [4] بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے ہفتے والے دن مچھلی کا شکار کیا اور عذاب الہی کے اثر سے وہ بندر میں تبدیل ہو گیا۔ [5] قرآن نے اس گروہ کو “اصحاب سبت” کے نام سے یاد کیا ہے۔ [6]

ماجرا

تفسیری روایات کے مطابق، ایک قوم دریا کے کنارے زندگی بسر کرتی تھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں حکم ہوا کہ ہفتہ والے دن مچھلی نہ کھائیں اور نہ ہی اس کا شکار کریں۔ انہوں نے کچھ عرصہ اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کیا [7] مچھلیاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہفتے والے دن پانی کے اوپر آ جاتیں اور اس طرح اس قوم کا امتحان لیا جاتا لیکن دوسرے دنوں میں پانی کے اندر چلی جاتیں اور آسانی سے ان کے ہاتھ نہ آتیں۔ [8] ایک گروہ نے ایک ترکیب سوچی اور دریا کے کنارے ایک گڑھا کھودا تا کہ مچھلیاں موجوں کے ساتھ باہر نکل کر اس گڑھے میں جمع ہوتی رہیں اور اتوار کو یہ انکو شکار کر لیں۔ [9] بعض دیگر اقوال کے مطابق، وہ ہفتہ والے دن مچھلیوں کا شکار کر لیتے اور دوسرے دنوں میں انہیں کھاتے، اور کہتے کہ ہمیں ہفتے والے دن شکار سے نہیں بلکہ صرف مچھلی کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ [10] ان کے سامنے ان کی قوم والوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور ایک گروہ ان کو اس کام سے روکتا[11] لیکن انہوں نے اپنے اس کام کو جاری رکھا، جو لوگ ان کو اس کام سے منع کرتے تھے کیونکہ انکو معلوم تھا کہ یہ عذاب الہیٰ میں گرفتار ہوں گے اس لئے وہ خود کو اس گروہ سے دور رکھتے۔

مسخ اصحاب سبت

آخر کار اصحاب سبت عذاب الہیٰ میں مبتلا ہو گئے اور مسخ ہو گئے: “ہم نے ان کو حکم دیا: منفور بندر کی شکل میں تبدیل ہو جائیں” [12] بعض روایات کے مطابق، یہ مسخ گروہ تین دن کے بعد ہلاک ہو گیا۔ [13]

بعض مفسرین، نے اصحاب سبت کے متعلق بعض آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے [14] کہ جو افراد اس برے کام سے منع کرتے تھے فقط انہیں نجات ملی لیکن دوسرے دونوں گروہ (خطاکار اور ساکتین) عذاب الہیٰ میں گرفتار ہوئے۔ [15]

مسخ، واقعیت یا تمثیل

مفسرین کی محدود تعداد من جملہ مجاہد اور محمد عبدہ نے نقل کیا ہے کہ اصحاب سبت کا مسخ، ایک تمثیل تھی اور فقط ان کے دل مسخ ہوئے تھے اور ظاہری اور جسمانی مسخ کی نفی کی ہے۔ [16] اکثر مفسرین نے اس پر تنقید کی ہے: طبرسی نے اس نظریے کو آیات کے ظاہر اور اکثر مفسرین کی نگاہ کے خلاف کہا ہے۔[17]

مکان اور زمان

قرآن کی آیات کے مطابق، اصحاب سبت دریا کے کنارے زندگی بسر کرتے تھے۔ [18] بعض نے ان کی محل زندگی کی جگہ کو “ایلہ” شہر کہا ہے۔ [19] امام باقر(ع) کی روایت میں بھی اصحاب سبت کے شہر کو ایلہ کہا گیا ہے۔ [20] علامہ طباطبائی کے مطابق، اصحاب سبت کے شہر کو مدین اور طبریہ بھی کہا گیا ہے۔[21]

اکثر روایات کے مطابق، اصحاب سبت کا قصہ حضرت داود(ع) کے زمانے میں پیش آیا ہے۔ [22]

حوالہ جات

  1. Jeffery ،The Foreign Vocabulary of the Qur p، ۱۹۸۳م، ص۱۶۱ بنقل از دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۹، ص۱۳۵(مدخل اصحاب سبت).
  2. مشکور، فرہنگ تطبیقی عربی با زبان‌ہای سامی و ایرانی، ۱۳۵۷ش، ج۱، ص۳۵۲ بنقل از دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۹، ص۱۳۵(مدخل اصحاب سبت).
  3. کتاب مقدس، سفر خروج، ۲۰: ۹-۱۰؛ سفر لاویان، ۲۳: ۱-۳؛ سفر تثنیہ، ۵: ۱۲-۱۵؛ ر. ک. تلمود، ۱۰۶p بہ بعد، به نقل از دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۹، ص۱۳۵(مدخل اصحاب سبت).
  4. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۹.
  5. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۴۴.
  6. سوره نساء، آیہ۴۷.
  7. تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۲۶۸-۲۶۹.
  8. سوره اعراف، آیہ ۱۶۳.
  9. تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۲۶۸-۲۶۹.
  10. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۴۴-۲۴۵.
  11. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۵۴.
  12. سوره بقره،‌ آیہ۶۵.
  13. تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۲۷۹.
  14. سوره اعراف، آیہ ۱۶۵.
  15. ر. ک. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۲۶۸-۲۶۹.
  16. مغنيہ محمد جواد، تفسير الكاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۲۱.
  17. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۲۶۴.
  18. سوره اعراف، آیہ ۱۶۳.
  19. فخررازی، مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۴۱۲.
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۲۶۶.
  21. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۳۰۳.
  22. فخررازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۲، ص۴۱۲.

مآخذ

  • تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری، قم، مدرسۃ الامام المہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف، ۱۴۰۹ق.
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
  • فخررازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح: طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ تطبیقی عربی با زبان‌ہای سامی و ایرانی، تہران، ۱۳۵۷ش.
  • مغنيہ محمد جواد، تفسير الكاشف، تہران، دارالکتب الاسلامیہ،‌۱۴۲۴ق.
تبصرے
Loading...