ابن شہر آشوب

ابن شہر آشوب

محمد بن علی بن شہر آشوب سَرَوی مازندرانی(۴۸۸-۵۸۸ ق)، ابن شہر آشوب کے نام سے معروف شیعہ عالم دین ہیں۔ وہ ایک فقیہ، مفسّر، محدّث اور چھٹی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ عالم دین مانے جاتے ہیں۔ مناقب آل ابی طالب اور معالم العلماء جیسی کتابوں کے مؤلف ہیں۔

ولادت و نسب

ابن شہر آشوب ۴۸۸ ق اور ایک قول کی بنا بر ۴۸۹ ق کو پیدا ہوئے۔[1] کچھ انہیں ساروی نام کے علاقے کا مانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے مازندران نامی صوبے کے شہر ساروی میں پیدا ہوئے۔[2] لیکن کچھ ان کی ولادت بغداد میں ذکر کرتے ہیں۔[3]

ابو عبد اللہ ان کی کنیت اور رشید الدین اور عز الدین لقب تھا۔[4]

سفر

منقول ہے کہ وہ حکمران مازندران کے ساتھ درگیری میں بغداد گئے. [5]اور وہاں جا کر وعظ و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ اس قدر شہرت حاصل کی کہ خلیفۂ وقت نے انہیں خلعت سے نوازا۔[6] کچھ مدت بغداد میں رہنے کے بعد وہاں سے ۵۶۷ ق میں شام کے شہر حلہ چلے گئے اور وہاں درس و تدریس میں مشغول رہے۔[7] اس سفر میں ابن ادریس حلی اور ابن بطری نے ان سے روایت سنی۔

ابن شہر آشوب ۵۷۳ ق میں شام کے شہر حلب گئے وہ مقام اس زمانے میں حمدانیوں اور شیعوں کی پناہ گاہ تھا۔ یہاں آخر عمر تک مقیم رہے۔[8]

اساتید

شاگردان

تألیفات اور آثار

وفات

ابن شہر آشوب ۲۲ شعبان سال ۵۸۸ ق جمعہ کی رات شہر حلب میں فوت ہوئے اور جَبَل جوشن کے نام سے معروف پہاڑ پر مدفون ہیں۔[12] حلب کے شیعوں کے عقیدے کے مطابق یہ مکان محسن بن حسین بن علی کا مقام دفن ہے جو مشہد السقط کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بابل نامی شہر میں ایک بقعہ موجود ہے کہ جو بنام ملا محمد بن شہر آشوب شہرت رکھتا ہے جو ابن شہرآشوب سے مشابہت لیکن اسمی لحاظ سے متغایر ہے۔ تحقیقی طور پر معلوم نہیں ہے کہ ملا محمد بن شہر آشوب کون ہے اور اس بقعہ میں مدفون شخص کون ہے؟ ڈاکٹر منوچہر ستوده نے اپنی کتاب از آستارا تا استارآباد کی (جلد چہارم) میں کہا: اس مقبرے کا شیخ رشیدالدین ابو جعفر محمد بن علی بن شہر آشوب السروی کا ہونا قطعی طور پر درست نہیں کہ جو چھٹی صدی کے فحول علما اور اہل ساری میں سے تھے اور وہ المتقی (۵۵۵ – ۵۳۰) کے زمانے میں بغداد کے منبر بر وعظ و نصیحت کیلئے جاتے تھے اور پھر انہوں نے حلب ہجرت کی اور زندگی کے آخر تک یہیں مقیم رہے اور آخر کار شعبان، ۵۷۹ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور وہیں جوشن نامی پہاڑ کے دامن میں مشہد محسن السقط بن حسین بن علی کے مقام پر دفن ہوئے۔

شاید یہ مقبرہ ایسے شخص کا ہو جس کے باپ کا نام علی ہو اور اسکا بیٹا شہر آشوب ہو یا شہر آشوب نام سے معروف خاندان کے کسی شہر آشوب یا ابن شہر آشوب کا ہو۔[13]

اقوال علما

شیخ حر عاملی ابن شہر آشوب کے متعلق لکھتے ہیں:

وہ ایک عالم، فاضل، ثقہ، محدث، ماہر علم رجال و روایات، ادیب، شاعر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔[14]

مرزا حسین نوری کہتے ہیں:

فخر شیعہ، تاج شریعت، افضل الاوائل و دریائے متلاطم ژرفی کہ جو ساحل کے بغیر ہو، احیاء کنندۂ آثار مناقب و فضائل، رشید الملت و الدین شمس الاسلام و المسلمین ابن شہرآشوب فقیہ، محدث، مفسر، محقق و …[15]

تفرشی لکھتا ہے:

محمد بن علی بن شہر آشوب: شیعہ مکتب کا راہنما اور ان کا فقیہ، شاعر اور مصنف تھا۔[16]

علمائے اہل سنت میں سے صلاح الدین صفدی لکھتے ہیں:

محمّد بن علی بن شہر آشوب…جانے پہچانے شیعہ تھے۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا تھا اور شیعہ علم اصول میں نہائی حدوں کو پہنچے تھے۔ وہ علوم قرآنی اور مشکلات حدیث، روایات، لغت، نحو اور خلیفہ عباسی مقتفی کے زمانے میں بغداد میں تمام سے افضیلت رکھتے تھے۔[17]

حوالہ جات

 

  1. لؤلؤه البحرین، ص ۳۴۰. ریحانۃ الادب، ج ۸، ص ۵۸.
  2. دائرة المعارف، تشیع، ج ۱، ص۳۳۷.
  3. مقدمہ معالم العلماء.
  4. مقالہ
  5. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج ۴، ص ۹۰.
  6. ریحانۃ الادب، ج ۸، ص ۵۹.
  7. کتاب سلیم بن قیس، ص ۶۳.
  8. مفاخر اسلام. مقدمہ معالم العلماء.
  9. فوائد الرضویۃ، ج ۲، ص۷۱۲.
  10. ایضا، ص۷۱۲ و ۷۱۳.
  11. ریحانۃ الادب، ج ۸، ص۵۹.
  12. اعیان الشیعہ، ج ۱، ص۸۲.
  13. بررسی رابطہ ای ملا محمد بن شہرآشوب بابلی با ابن شہر آشوب ساروی
  14. امل الآمل، ج ۲، ص۲۸۵.
  15. خاتمہ مستدرک، ج ۳، ص۵۶ و ۵۷.
  16. نقد الرجال، ج ۴، ص۲۷۶.
  17. تأسیس الشیعہ، ص۲۷۲.

منابع

  • ابن شہر آشوب، محمد علی، معالم اللمعاء.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی‌ تا.
  • تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، قم، آل البیت، ۱۴۱۸ ه ق.
  • حر عاملی، امل الآمل، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۲ ش.
  • سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سلیم، بیروت، مؤسسہ اعلمی، بی‌ تا.
  • صدر، سید حسن، تأسیس الشیعہ، تہران، مؤسسہ اعلمی، ۱۳۶۹ ش.
  • قمی، شیخ عباس، فوائد الرضویہ، قم، نشر نوید اسلام، ۱۳۸۷.
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ و اللقب، قم، خیام، ۱۳۷۴ ش.
تبصرے
Loading...