آخرت

آخرت

آخرت قرآن، سنت اور اسلامی تہذیب کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی موجودہ دنیا کے مقابلے میں دوسری دنیا(موت کے بعد کا عالم) کے ہیں۔ آخرت ایک ایسا عالم ہے جہاں تمام انسان اپنے کئے کی سزا یا جزا پائے گا۔ تمام الہی ادیان میں آخرت کا تصور پایا جاتا ہے۔

آخرت پر ایمان لانا اسلامی تعلیمات کے اصول دین میں شامل ہے اس بنا پر جو شخص آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو اسے مسلمان ہی شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ قرآن میں آخرت کی اہمیت پر تأکید کی گئی ہے اور معاد پر ایمان لانے کو تمام انبیاء کی تعلیمات کے مشترک اصولوں میں شمار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قرآنی آیات کا ایک تہائی حصہ آخرت سے مربوط ہے۔

مسلم متکلمین اپنی کتابوں میں آخرت کو معاد کے نام سے یاد کرتے ہوئے اس کے اثبات میں عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ مسلمان علماء قرآن کی آیات سے استناد کرتے ہوئے آخرت کو دنیا سے بالکمل مختلف عالم قرار دیتے ہوئے اس کی مختلف خصوصیات بیان کرتے ہیں من جملہ ان میں: جاودانگی، گناہگاروں اور نیکوکاروں کی تفکیک، دنیوی اعمال کے نتائج سے آگاہی اور شایستگی کی بنیاد پر مختلف نعمات سے بہمرہ مند ہونا ہے۔

بعض علماء کے مطابق دنیوی زندگی کے اختتام سے آخرت کا آغاز ہوتا ہے، لیکن دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ عالم آخرت ابھی بھی موجود ہے اور اس دنیا پر احاطہ رکھتی ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

آخرت کے معنی اختتام، انجام اور دیگر کے ہیں[1] اور اس سے مراد وہ عالم ہے جو اس دنیا کے بعد آئے گا۔[2] قرآن میں عموما لفظ آخرت (بغیر کسی قید کے) سے مراد موت کے بعد کا عالم ہے (104 بار)؛ لیکن بعض اوقات “دارالآخرۃ” (سرای دیگر) اور “یوم‌الآخر” (روز دیگر) سے بھی آخرت مراد لیتے ہیں۔[3]

آخرت پر ایمان لانے کی اہمیت

آخرت پر ایمان لانا اصول دین اور مسلمان ہونے کے شرائط میں سے ہے؛ یعنی جو شخص آخرت پر ایمان نہ رکھے وه مسلمان محسوب نہیں ہو گا[4] شہید مطہری کے مطابق تمام انبیاء کی تعلیمان میں توحید کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ آخرت پر ایمان ہے۔[5]

آیت اللہ مصباح یزدی کے مطابق قرآن کی آیات کا ایک تہائی حصہ آخرت سے مربوط ہے۔[6] قرآن میں آخرت پر ایمان لانا تمام انبیاء کے تعلیمات میں شمار کیا گیا ہے۔[7] قرآنی آیات کے مطابق آخرت پر ایمان لانا توحید اور نبوت کے بعد اسلام کے اصول دین میں سے ہے[8] تمام اسلامی مذاہب اس بات کے معتقد ہیں کہ آخرت پر ایمان لانا دین کی ضروریات میں سے ہیں اور جو شخص اس پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ مسلمان شمار نہیں ہو گا۔[9]

مسلمان متکلمین اپنی کتابوں میں آخرت کی بحث کو “اصل معاد” کے عنوان سے مطرح کرتے ہیں۔[10] برزخ، قیامت، صراط، حساب و کتاب، شفاعت، بہشت اور دوزخ وغیرہ آخرت سے مربوط موضوعات ہیں جن پر ایمان لانا قرآن و احادیث نیز مسلمان علماء کے تحریروں میں ضروری قرار دیا گیا ہے۔[11]

آخرت کے وجود پر دلیل

مسلمان علماء دلیل نقلی کو آخرت کے وجود پر سب سے اہم دلیل قرار دیتے ہیں؛ یعنی جب گناہوں سے پاک اور معصوم انبیاء آخرت کے موجود ہونے کی خبر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، یہی چیز اس کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔[12]

شہید مطہری کے مطابق دلیل نقلی کے علاوہ بھی آخرت کو ثابت کرنے کے راستے موجود ہیں جنہیں کم از کم آخرت کی “نشانیاں اور قرائن و شواہد” قرار دیا جا سکتا ہے۔ شہید مطہری اس سلسلے میں تین بنیادی راستوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ایک: خدا کی شناخت دوسرا: کائنات کی شناخت اور تیسرا: انسانی روح اور نفس کی شناخت۔[13]

“برہان حکمت” اور “برہان عدالت” آخرت کے اثبات کے سلسلے میں پیش کی جانے والی عقلی‌ دلیلوں میں سے ہیں[14]

برہان حکمت کے مطابق یہ خدا کی حکمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے کہ انسانی حیات جو ہمیشہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، کو صرف اسی دنیوی زندگی تک محدود کرے؛ خدا نے انسان کو کمال کی انتہاء تک پہنچنے کے لئے خلق فرمایا ہے اور کمال کی انتہاء تک پہنچنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ آخرت میں موجود کمالات کو دنیا میں موجود کمالات کے ساتھ اصلا مقایسہ اور موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔[15]

برہان عدالت میں کہا جاتا ہے کہ: چونکہ اس دنیا میں نہ نیکوکار اس کی نیکی کے مطابق مکمل جزا اور ثواب دیا جا سکتا ہے اور نہ گناہگار کو اس کے گناہ کے مقابلے میں صحیح سزا دی جا سکتی ہے، تو خدا کی عدالت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسا عالم ہو جس میں ان دونوں کو صحیح معنوں میں جزا اور سزا دی جا سکے۔[16]

خصوصیات اور اس کا دنیا کے ساتھ فرق

شہید مطہری کے مطابق قرآن کی سینکڑوں آیات میں عالم آخرت سے مربوط موضوعات جیسے موت کے بعد کا عالم‌، قیامت، مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیت، میزان، حساب، ضبط اعمال، بہشت و جہنم اور آخرت کی جاودانگی وغیره کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔[17] مسلم سکالرز قرآنی آیات کی روشنی میں آخرت کو اس دنیا سے بالکل مختلف ایک عالم قرار دیتے ہیں جس میں موجود نظام بھی اس دنیا میں موجود نظام سے مختلف ہے۔[18]

آخرت میں انسانی خلقت کی ابتداء سے انتہاء تک خلق ہونے والے تمام انسان ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔[19] آخرت میں انسان دو طرح کے ہیں یا مکمل سعادت سے ہمکنار ہیں اور وہ جو کچھ بھی چاہے ان کے لئے میسر ہیں یا مکمل بدبختی میں گرفتار ہیں جن کے لئے بدبختی اور ہلاکت سکے سوا کوئی چیز میسر نہیں ہے؛ حالانکہ اس دنیا میں موت اور حیات، بہرہ‌مندی اور محرومیت، بدبختی اور سعادت، سختی و آسانی اور غم و شوشحالی دونوں میسر ہیں۔[20]

قرآن اور احادیث کی روشنی میں آخرت کی بعض دوسری خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • جاودانگی: قرآنی آیات کے مطابق آخرت پایان‌ ناپذیر اور ابدی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ ق کی آیت نمبر 34 میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بہشتیوں کو بشارت دی جائے گی: “آج جاودانگی اور ہمیشگی کا دن ہے۔” اسی طرح غررالحکم میں امام علی(ع) سے منقول ہے: “دنیا تمام‌ ہونے والی اور آخرت ابدی ہے۔”[21]
  • نیکوکاروں کا گناہگاروں سے جدائی: قرآنی آیات کے مطابق آخرت میں نیکوکار اور گناہگار ایک دوسرے سے جدا ہونگے: “اور اے گناہگارو آج [بے گناہوں] سے جدا ہو جاؤ”؛[22] “جس نے کفر اختیا کیا انہیں دوزخ کی طرف دھکیل دیا جائے گا، تاکہ خدا پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے جدا کرے۔”[23] مؤمنین خوشی کے سات بہشت جائیں گے اور کافر غمگین‌ جہنم میں داخل ہونگے:[24] “جو اپنے پروردگار سے خوف کھاتے ہیں فوج فوج بہشت کی طرف بھیجے جائیں گے”؛[25] اور مجرموں کو تشنگى کی حالت میں دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا۔”[26]
  • اعمال کے آثار: قرآن کی آیات کے مطابق انسان کو اس دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کا ثمرہ آخرت میں دیا جائے گا: “اور اس کی کوششوں کا ثمرہ عنقریب دیکھا جائے گا۔ اس کے بعد اسے مکمل جزا دیا جائے گا”؛[27] “تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس (کی جزا) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اس (کی سزا) کو دیکھ لے گا۔”[28]
  • شایستیگی کی بنیاد پر نعمات سے بہرہ‌مند ہونا: دنیا کے برخلاف آخرت میں ہر شخص کو اس کی شایستگی کی بنیاد پر نعمات سے بہرہ‌مند کیا جائے گا۔ امام علیؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ: “دنیا کے حالات اتفاقی ہے اور آخرت میں استحقاق کی بنیاد پر انسان کو بہرہ مند کیا جائے گا۔”[29]

محدودہ

آخرت کے محدودے کی بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے: بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ آخرت کا انسان کی موت اور عالم برزخ میں وارد ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے؛ لیکن بعض عالم برزخ کو آخرت کا حصہ نہیں مانتے اور کہتے ہیں: آخرت کا آغاز عالم برزخ کے اختتام سے ہوتا ہے۔[30] اسی طرح متکلمین اس بات کے معتقد ہیں کہ آخرت کا آغاز دنیوی زندگی کے اختتام سے ہوتا ہے؛ لیکن فلاسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ آخرت ابھی بھی موجود ہے اور دنیا پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ فلاسفہ جن آیات سے استناد کرتے ہیں ان میں سے ایک سوره توبہ کی آیت نمبر 49 ہے:‌ “وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةُ بِالْكَفِرِين(ترجمہ: بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔۔)”[31]

آخرت کے بارے میں قرآن و احادیث میں سفارش

قرآن اور احادیث میں آخرت کے بارے میں بہت زیادہ سفارش‌ کی گئی ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • “اور دنیا کی زندگی نہیں ہے مگر کھیل تماشا اور بے شک آخرت والا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہت اچھا ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔؟!”[32]
  • “یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں تکبر و سرکشی اور فساد برپا کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں کے ہی لئے ہے۔”[33]
  • “جو شخص آخرت کو زیادہ یاد کرتا ہے اس کے گناہ میں کمی آ جاتی ہے۔”[34]
  • “دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔”[35]
  • “جس شخص کی دن رات کا ہم و غم آخرت ہو، خدا اس کے دل میں بے نیازی ڈال دیتا ہے اور اس کے امور کو حل کر دیتا ہے اور یہ شخص اس دنیا رخصت نہیں ہوگا مگر یہ کہ دنیا سے اپنی روزی مکمل دریافت کر چکا ہوگا۔”[36]

کتابیات

آخرت کے بارے میں لکھی گئی کتابوں میں سے ایک منازل‌ الآخرۃ ہے جسے چوتھی صدی ہجری کے دانشور شیخ عباس قمی نے تحریر کی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں آخرت کے مراحل کو بیان کیے ہیں جو باالترتیب یہ ہیں: موت، قبر، برزخ، قیامت اور صراط۔ اسی طرح اس کتاب میں میزان، حساب‌ کتاب اور جہنم کے عذاب کے بارے میں بھی گفتگو کی ہیں اور آخر میں بعد عبادتیں اور اخلاقی امور کی رعایت کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو ان مراحل سے آسانی سے گزرنے میں مدد دیتے ہیں۔

مناز‌ل‌ الآخرۃ کا عربی، انگریزی، ترکی اور اردو زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  2. شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۸۹ش، ص۱۵.
  3. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  4. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۱.
  5. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۱.
  6. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۳۴۱.
  7. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  8. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  9. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  10. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۱.
  11. مجتہد شبستری، «آخرت»، ص۱۳۳.
  12. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۲و۵۰۳.
  13. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۳.
  14. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۳۶۴و۳۶۶.
  15. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۳۶۴.
  16. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۳۶۵.
  17. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق، ج۲، ص۵۰۱۔
  18. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۱۴۸؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۴۱۱۔
  19. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۴۱۱۔
  20. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۱۴۸۔
  21. آمدی، غررالحکم، ۱۳۶۶ش، ص۱۳۴۔
  22. سورہ یس، آیہ ۵۹۔
  23. سورہ انفال، آیہ ۳۶و۳۷۔
  24. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۴۱۵۔
  25. سورہ زمر، آیہ ۷۳۔
  26. سورہ مریم، آیہ ۸۶۔
  27. سورہ نجم، آیہ ۴۰و۴۱۔
  28. سورہ زلزال، آیہ ۷و۸۔
  29. آمدی، غررالحکم، ۱۳۶۶ش، ص۱۴۸۔
  30. خراسانی، «آخرت»، ص۹۸.
  31. خراسانی، «آخرت»، ص۹۸و۹۹.
  32. سورہ انعام، آیہ ۳۲.
  33. سورہ قصص، آیہ ۸۳.
  34. آمدی، غررالحکم، ۱۳۶۶ش، ۱۴۶.
  35. ابن‌ابی‌جمہور، عوالی‌اللیالی، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۲۶۷.
  36. ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش، ص۴۸.

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌ابی‌جمہور، محمد بن زین‌الدین، ‏عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، تحقیق مجتبى عراقى‏، قم، دار سیدالشہدا للنشر، چاپ اول، ۱۴۰۵ق۔
  • ابن‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف‌العقول عن آل‌الرسول، تحقیق على‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق۔
  • آمدی، عبدالواحد، تصنیف غررالحکم و دررالکلم، تحقیق مصطفی درایتی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۶ش۔
  • خراسانی، علی، «آخرت»، دایرۃالمعارف قرآن کریم، ج۱، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ پنجم،بی‌تا۔
  • شعرانی، ابوالحسن، نثر طوبی؛ لغتنامہ قران کریم، تحقیق سیدمحمدرضا غیاثی کرمانی، قم، بنیاد فرہنگی مہدی موعود، چاپ اول، ۱۳۸۹ش
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
  • مجتہد شبستری، محمد، «آخرت»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۴ش۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، امیرکبیر، چاپ ہجدہم، ۱۳۸۴ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۲، تہران، انتشارات صدرا، چاپ ہفتم، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۸ق۔
  • مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%D8%AE%D8%B1%D8%AA

تبصرے
Loading...