شرطۃ الخمیس

شرطۃ الخمیس (شرطت الخمیس) سے حضرت علی کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا وہ مسلح گروہ مراد ہے جو ہر جگہ حضرت علی کی حکومتی امور میں مدد کرتا تھا۔یہ جماعت جنگوں میں امام کی ہمرکابی کے علاوہ امن کے زمانے میں اجرائے حدود الہی ،کوفہ کی حفظ امنیت،آپ کی حفاظت اور جنگ کیلئے افرادی قوت کو جمع کرنے کے فرائض انجام دیتا تھا۔

لغوی معنا

شُرطة[1] الخَمِیس میں سے شرطۃ لغت میں گروه، گروہوں، شرط اور پیمان و عہد کے معنی میں آیا ہے ۔[2] اصطلاح کے لحاظ سے لشکر کے پہلے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جو جنگ میں حاضر ہوتا ہے اور مرنے کیلئے تیار ہو ۔[3] خمیس لشکر کے معنا میں ہے اور خمیس کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ لشکر پانچ حصوں: مقدمہ، ساق، مَیمَنہ(سمت راست)، مَیسرِه(سمت چپ) اور قلب میں تقسیم ہوتا ہے۔[4]

اصطلاحی معنا

شرطۃ الخمیس میں 6000 افراد حضرت علی کے با وفا اصحاب تھے۔[5] کہ جو جنگ کرنے سے لے کر مرنے تک تیار رہتے تھے اور حضرت علی انکی بہشت کے ضامن تھے ۔[6]

طبری نے انکی تعداد 40 ہزار بتائی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی کی بیعت کی تھی کہ وہ آخر دم تک حضرت کے ساتھ رہیں گے [7] ابن سعد نے انکی تعداد حضرت علی کی شہادت کے بعد 12ہزار بیان کی ہے۔[8]

مقام و منزلت

شرطہ الخمیس کی فضیلت میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
تم سے پہلے بنو اسرائیل میں یہ گروہ موجود تھا جنہوں نے شرطۃ الخمیس کا معاہدہ کیا تھا اور ان میں سے کوئی بھی شہادت کے درجے پر فائز نہیں ہوا مگر یہ کہ قوم کا پیغمبر،شہر کا پیغمبر یا اپنے نفس کا پیغمبر تھا ۔تم انہیں کی مانند ہو مگر اس فرق کے ساتھ تم جزو انبیا میں سے نہیں ہو۔[9]

خصوصیات

شرطۃ الخمیس کی بعض خصوصیات تھیں جیسے ہمیشہ مسلح رہنا،ہر وقت امام علی کے ساتھ رہنا اور تیار رہنا۔یہ افراد جنگوں میں ہراول دستہ ہوتے تھے ۔ہمیشہ اور ہر وقت تیار اور فرمان امام کو بجا لانے کیلئے مستعد رہتے اور امام کے فرمان کے نافذ العمل کرنے میں ذرا برابر تاخیر و تعطل سے کام نہ لیتے ۔یہ مختلف قبائل سے تھے اور انہوں نے اپنی جان پر امام کی بیعت کی تھی۔

ذمہ داریاں

جنگ کے علاوہ دیگر ایام میں یہ گروہ ہمیشہ آمادہ اور امام کے ہمراہ رہتا اور انہیں چند اہم ذمے داریاں جیسے حدود کا جاری کرنا[10]کوفہ شہر کا امن[11]امام علی کی جان کی حفاظت کرنا[12] جنگ کیلئے قوت کی جمع آوری کرنا[13] سونپی گئیں تھیں۔

شرطۃ الخمیس جنگوں میں مقاومت کا مظاہرہ کرتے [14] اسی طرح غارات کے واقعے میں شام کے سپاہیوں کے عراق پر حملوں کے بعد حضرت علی نے انہیں دور ہٹانے کیلئے بھیجا۔[15]

افراد گروہ

شرطہ الخمیس کے افراد کے نام : مقداد، عمار یاسر، ابو سنان انصاری، ابو عمرو انصاری، سہل بن حنیف، عثمان بن حنیف، جابر بن عبدالله انصاری، حکیم بن سعید حنفی(ابویحیی)[16]، عبدالله بن یحیی حضرمی، سلیم بن قیس ہلالی، عبیده سلمانی مرادی[17]، یحیی حضرمی[18]، قیس بن سعد[19]، اصبغ بن نباتہ[20] و نعیم بن دجاجہ.[21]

بعض مآخذوں میں سلمان و ابوذر نیز شرطہ الخمیس میں سے گنے گئے ہیں ۔[22] لیکن شرطہ الخمیس حضرت امام علی کے دور حکومت میں تشکیل پانے کی بنا پر ان دو افراد کا نام اس گروہ میں آنا درست نہیں لگتا ہے ۔

اصبغ بن نباتہ شرطہ الخمیس کا سربراہ [23] اور قیس بن سعد بن عباده ذکر ہوا ہے [24]ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو مختلف زمانوں میں اس جماعت کے سربراہ رہے ۔

حوالہ جات

  1. محمد جعفر بن محمد طاهر الخراساني الكرباسي،اكليل المنہج في تحقيق المطلب،14
  2. فرہنگ عمید، ص۶۷۰
  3. فرہنگ عمید، ص۶۷۰
  4. علیاری تبریزی، ج۲، ص۳۵۰؛ مجلسی، ملاذ الاخبار، ج۱، ص۲۴۰.
  5. مفید، ص۲
  6. بحرالعلوم، سید مہدی، الفوئد الرجالیہ، ج۳، ص۳۶.
  7. طبری، تاریخ، ۱۹۶۷م، ج۵، ص ۱۵۸
  8. ابن سعد، طبقات، ۱۹۹۰م، ج خامسہ۱، ص۳۲۱
  9. علیاری تبریزی، ج۲، ص۳۵۰
  10. کلینی، کافی، ج۱، ص۳۴۶؛ صدوق، من لا یحضر الفقیه، ج۳، ص۲۵؛ طوسی، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۳۱۶؛ منقری، وقعة الصفین، ص۳۸۵.
  11. ابن ابی الحدید،‌ شرح نهج البلاغہ، ۱۳۷۸ش، ج۳، ص ۱۹۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۳۹، ص ۱۳۲
  12. ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص ۵۴۹
  13. ابن مزاحم منقری، وقعه صفین، ۱۳۸۲ق، ص۴ و ۹۶ و ۱۲۱ و ۱۳۲
  14. قمی، العقد النضید، ۱۴۲۳ق، ص ۱۶۲
  15. ثقفی کوفی، الغارات، ۱۳۵۳ش، ج۲، ص ۴۸۹
  16. برقی، رجال، ص۴؛ طوسی، رجال، ص۶۰؛ خوئی،معجم رجال الحدیث، ج۶، ص۱۸۸.
  17. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۳۴، ص۲۷۲؛ مفید، الاختصاص، ص۳.
  18. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۲۰، ص۹۸.
  19. طبری، تاریخ، ۱۹۶۷م، ج۴، ص۱۶۳؛ ابن سعد، طبقات، ۱۹۹۰م، ج۶، ص۱۲۲؛ کشی، رجال، ص۱۱۰؛ خوئی، معجم الحدیث، ج۱۴، ص۹۵.
  20. تاریخ خلیفہ، ص۱۲۱؛ ابن مزاحم منقری، وقعۃ الصفین، ۱۳۸۲ق، ص۴۰۶؛ کشی، رجال، ص۱۰۳؛ مفید، الاختصاص، ص۶۵.
  21. ثقفی کوفی، الغارات، ۱۳۵۳ش، ج۱، ص۱۲۱
  22. برقی، رجال، ص۴.
  23. ابن مزاحم منقری، وقعۃ الصفین، ۱۳۸۲ق، ص۴۰۶
  24. طبری، تاریخ، ۱۹۶۷م، ج۴، ص۱۶۳؛ ابن سعد، طبقات، ۱۹۹۰م، ج۶، ص۱۲۲

منابع

  • ‌ ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۰/ق۱۹۹۰م.
  • ابن مزاحم منقری، نصر، وقعة صفین، تحقیق: عبدالسلام محمد هارون، مؤسسة العربیة الحدیثہ، قاہره، الطبعۃ الثانیہ، ۱۳۸۲ق، افست قم، منشورات مکتبہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق.
  • بحرالعلوم، سید مہدی، الفوئد الرجالیہ، تحقیق و تعلیق: محمدصادق بحرالعلوم، حسین بحرالعلوم، طہران: مکتبہ الصادق، ۱۳۶۳ش.
  • ثقفی کوفی، ابواسحاق ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق جلال الدین حسینی ارموی، تہران، نشر انجمن آثار ملی، ۱۳۵۳ش
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ، تحقیق: فواز، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • خوئی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش.
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ق
  • صدوق، من لا یحضر الفقیہ، تحقیق: علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • طوسی، تہذیب الاحکام، تحقیق: سید حسن موسوی خرسان، دارالکتب الاسلامیه، تہران.
  • طوسی، رجال الطوسی، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۵ق.
  • علیاری تبریزی، بہجۃ الامال فی شرح زبدة المقال، بنیاد فرہنگ اسلامی حاج محمدحسین کوشان پور، تہران.
  • فرہنگ عمید.
  • قمی، محمد بن حسن، العقد النضید و الدر الفرید، تحقیق علی اوسط الناطقی، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۳ق
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، انتشارات دانشگاه مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، تہران.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، ملاذ الأخیار فی فہم تہذیب الأخبار، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۶ق
  • مفید، الإختصاص، انتشارات کنگره جہانی شیخ مفید قم، ۱۴۱۳ق.
تبصرے
Loading...