الوافی (کتاب)

الوافی

حدیث کی ایک کتاب ہے۔ اس کتاب میں شیعہ کتب اربعہ اور متاخرین کے دَور کی ابتدائی جوامع احادیث کی تمام روایات موجود ہیں۔ فیض کاشانی نے اس کتاب میں احادیث کو جمع کرنے کے علاوہ احادیث میں موجود مشکلات کو دور کرنے اور احادیث کی تشریح کی بھی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے چار ابواب ہیں اور کتاب کی خصوصیات کے پیش نظر ہمیشہ متاخر علما کی توجہ کو اپنی طرف جلب کیا ہے اور اس پر بہت سارے شروحات اور حاشیے لکھے گئے ہیں۔

کچھ مؤلف کے بارے میں

محمد بن مرتضی بن محمد، ملا محسن کاشانی کے نام اور فیض کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ محدث، فلسفی، عارف، فقیہ اور ادیب تھے۔ چودہ صفر سنہ 1007 ہجری قمری کو متولد اور 2 ربیع الثانی سنہ ۱۰۹۱ھ کو وفات پائی اور کاشان میں دفن ہوئے۔[1]

وجہ تسمیہ

مؤلف لکھتا ہے کہ میں نے اس کا نام «الوافی» (پورا پورا حق ادا کرنا) رکھا ہے کیونکہ روایات کو لانے اور اہم مباحث کو بیان کرنے اور تشریح دینے میں حق ادا کیا ہے۔[2]

تاریخ تألیف

اس کتاب کو لکھنے میں مؤلف نے نو سال اور ایک مہینے کا وقت لگایا ہے اور سنہ 1068ھ کو مکمل کیا ہے۔[3]

کتاب لکھنے کی علت

مولف کتاب کے دیباچے میں اس کتاب کو لکھنے کی وجوہات یوں بیان کرتے ہیں:

  1. صرف کتب اربعہ میں سے کوئی ایک بھی مراجعہ کرنے والے کے لیے کافی نہیں ہیں کیونکہ بعض اہم روایات ان میں ذکر نہیں ہیں۔
  2. ان کتابوں کی طرف مراجعہ اور مطلوبہ روایت کو ڈھونڈ نکالنا بہت مشکل ہے کیونکہ کتابوں کے عناوین میں اختلاف اور سازگاری نہیں ہے۔ (بعض احادیث کو ان سے مربوط باب میں ذکر نہیں کیا ہے اور کہیں اور درج ہوئی ہیں۔ اور بعض دفعہ کچھ روایات ایک دوسرے سے الگ آتی تو مناسب تھا اور وہ جمع کر کے لائی گئی ہیں۔ یا برعکس انجام دیا گیا ہے، جو روایات ایک ہی موضوع کے بارے میں ہیں اور ایک ہی باب میں ذکر ہونی چاہیے تھیں وہ الگ الگ ابواب میں درج ہوئی ہیں۔)
  3. کتب اربعہ میں بعض روایات تکرای ہوئی ہیں اور کئی بار ذکر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے کتاب کا حجم زیادہ ہوا ہے۔[4]

کتاب کا ڈھانچہ

کتاب الوافی ایک مقدمہ اور چودہ کتاب اور ایک خاتمے پر مشتمل ہے۔ آقا بزرگ تہرانی کی شمارش کے مطابق اس کتاب کے کل 273 باب اور تقریبا پچاس ہزار احادیث پر مشتمل ہے۔

اس کتاب میں شیعہ کتب اربعہ (الکافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام اور الاستبصار) کی تمام احادیث موجود ہیں۔اور ان کے علاوہ فیض کاشانی نے کوشش کی ہے کہ روایات کی جمع آوری کے علاوہ روایات کی تشریح بھی کرے اور ان میں موجود مشکلات کو دور کرے۔

دیگر حدیثی کتابوں سے موازنہ

کتاب کے عناوین

کتاب کے چودہ حصے بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

  1. کتاب عقل و علم و توحید.
  2. کتاب حجت.
  3. کتاب ایمان و کفر.
  4. کتاب طہارت و زینت.
  5. کتاب صلوۃ و دعا و قرآن.
  6. کتاب زکات و خمس و مبرات.
  7. کتاب صوم و اعتکاف و معاہدات.
  8. کتاب حج و عمرہ و زیارات.
  9. کتاب حِسبہ و احکام و شہادات.
  10. کتاب مَعایش و مکاسب و معاملات.
  11. کتاب مَطاعِم و مَشارب و تجملات.
  12. کتاب نکاح و طلاق و ولادات.
  13. کتاب جنایز و فرایض و وصیات.
  14. کتاب روضۃ جو متفرق احادیث پر مشتمل ہے۔

الوافی کا خاتمہ تہذیب، استبصار، من لایحضرہ الفقیہ کے اسناد کے بارے میں ہے جس میں ملا محسن نے کتابوں کی طرف مراجعہ آسان ہونے کے لیے الف با کی ترتیب سے اسامی کو ترتیب دیا ہے اور اختصار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بعض راویوں کے نام کو اختصار کی شکل میں لایا ہے۔[5]

کتب اربعہ اور فیض کے نقد

مؤلف، کتاب کے مقدمے میں کتب اربعہ کو نقد کرتے ہوئے ایک حدیثی کتاب کی تدوین کی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔

کتاب کافی:
آپ کتاب الکافی کو اصول پر مشتمل ہونے اور اضافی اور زواید احادیث سے مبرا ہونے کی وجہ سے کتب اربعہ میں سے شریف ترین، موثق ترین، کامل ترین اور جامع ترین کتاب سمجھتے ہوئے مندرجہ ذیل مشکلات کی نشاندہی رتے ہیں:

  1. بہت سارے احکام کو بیان کرتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کرتے ہوطے اس سے متعلق ابواب کو مکمل نہیں کیا ہے۔
  2. بعض موارد میں جہاں روایات میں تعارض پایا جاتا ہے وہاں پر دونوں طرف میں سے صرف ایک طرف کے روایات کو نقل کیا ہے اور اس کی مخالف روایات کو نقل نہیں کیا ہے۔
  3. احادیث میں موجود ابہام اور مشکلات کو بغیر کسی تشریح کے چھوڑ دیا ہے۔
  4. بعض کتب، ابواب اور روایات کے بارے میں مناسب کام نہیں ہوا ہے اور بسا اوقات کوئی حدیث اس سے غیر مربوط باب میں نقل ہویی ہے۔

کتاب من لایحضرہ الفقیہ:
فیض کاشانی کتاب من لایحضرہ الفقیہ کے بارے میں لکھتا ہے: کتاب الفقیہ بھی مذکورہ موارد میں سے اکثر میں الکافی کی طرح ہے۔ اور اس میں درج ذیل مشکلات بطور خاص ہے:

  1. اصول عقائد سے مربوط احادیث سے خالی ہے۔
  2. بہت سارے باب اور فصل کو ذکر نہیں کیا ہے۔
  3. اور بعض اوقات حدیث اور مولف کی بات میں اشتباہ ہوتا ہے کیونکہ مولف کی بات حدیث کے تسلسل میں لیا گیا ہے۔
  4. احادیث کو سند کے اعتبار سے مرسل نقل کیا ہے اور بہت سارے موقعوں پر اسناد کو ذکر نہیں کیا ہے۔

کتاب تہذیب الاحکام:
مؤلف، تہذیب الاحکام کے بارے میں یوں کہتا ہے: تہذیب الاحکام اگرچہ احکام کا مجموعہ ہے اور تقریبا اس میں تمام احادیث احکام کے بارے میں ہیں لیکن اصول عقائد کے بارے میں اس میں بھی الفقیہ کی طرح کوئی حدیث نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تہذیب الاحکام میں بھی مندرجہ ذیل مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے

  1. حقیقت سے عاری تاویلات پر مشتمل ہونا اور متعارض روایات میں غیر صحیح جمع کرنا۔
  2. جن روایات کو ایک دوسرے سے الگ الگ ذکر ہونا چاہیے تھا انہیں ساتھ اور جنہیں ساتھ ہونا چاہیے تھا انہیں الگ الگ ذکر کیا ہے۔
  3. بہت ساری احادیث کو غیر موزوں جگہے پر رکھنا اور ان کی اپنی جگہ پر ذکر نہ کرنا۔
  4. رنج آور تکرار اور ابواب مختصر عناوین کے ساتھ تکرار کے ذریعے طول دینا۔

کتاب الاستبصار:
الاستبصار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کتاب تہذیب الاحکام کا ایک حصہ ہے جو اس سے الگ کیا گیا ہے اور معارض اور مخالف روایات کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے اور انہیں جمع کرنے کے لیے قریب اور غریب احادیث سے مدد لینے کی کوشش کی ہے۔
الوافی کے مولف مزید لکھتے ہیں کہ منتشر احادیث کی جمع آوری اور نقل حدیث کے بارے میں تینوں شیخوں (شیخ کلینی، شیخ طوسی، شیخ صدوق) کی کوششیں لائق تحسین ہیں، اور جو کچھ انہوں نے جمع کیا ہے اور جو کچھ جمع نہیں کیا ہے یہ عام انسان کے بس سے باہر کا کام ہے۔ بہرحال انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور جو کچھ ان سے رہ گیا ہے وہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔

اصل بحث شروع کرنے سے پہلے مولف نے جن تین چیزوں کو ذکر کیا ہے اور ان کے بارے میں توضیح دی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: دینی علوم کی پہچان کا طریقہ، احادیث کے اسناد اور کتاب میں استعمال شدہ اصطلاحات اور قواعد کی شناخت۔[6]

خصوصیات اور امتیازات

  • روایات کو مناسب ابوب میں بہت اچھی ترتیب سے بیان کرنا؛
  • بعض آیات اور روایات میں موجود مشکل الفاظ کی تشریخ؛
  • کتب اربعہ کے علاوہ دیگر روایات کو بھی مناسب ابواب میں ذکر کرنا۔
  • بہت ساری روایات میں اسناد کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز کرنا؛
  • تقطیع روایات کی طرف اشارہ؛
  • قرآن مجید کی بہت ساری آیات کی تفسیر؛
  • احادیث کی معانی بیان کرتے ہوئے حدیث کے صدور کے اسباب کی طرف توجہ؛
  • مختلف روائی مآخذ کے ذریعے سے کتب اربعہ کی روایات کی تصحیح؛
  • کتب اربعہ کی روایات کے اسناد کی تصحیح؛
  • علمی نظریات کی صاحبان نظر کی طرف نسبت دیتے ہوئے علمی تقوای کی رعایت؛
  • بعض آیات اور روایات میں بیان شدہ مطالب کا فلسفہ بیان کرنا؛
  • فقہی فتووں میں صرف دلیل کی اتباع؛
  • روایات میں موجود ضرب المثل‌ کی توضیح؛
  • روایات میں موجود تشبیہات کی توضیح اور تشریح؛
  • مثال کے ذریعے روایات کے معانی کی وضاحت کرنا؛
  • روایات کے مضمون سے مشابہ اشعار کا ذکر کرنا؛
  • کتب اربعہ اور دیگر کتب میں ایک روایت کے ورود کے موارد کی جستجو کرنا؛
  • متن اور سند کے نقل میں امانت کی رعایت[7]

شروحات اور حواشی

الوافی پر مندرجہ ذیل کتابیں شرح کے طور پر یا حاشیہ کے نام پر لکھی گئی ہیں۔

  1. الحاشیۃ علی الوافی، خود مؤلف الوافی.
  2. الحاشیۃ علی الوافی، عبداللہ بن عیسی افندی(م ۱۱۳۰ ھ)
  3. الحاشیۃ علی الوافی، سید ابراہیم بن محمد باقر رضوی، وافیہ پر شرح لکھنے والے سید صدرالدین تونی کے بھائی
  4. الحاشیۃ علی الوافی، سید عبداللہ بن نور الدین جزایری(م ۱۱۷۳ ھ)
  5. الحاشیۃ علی الوافی، محمد باقر بن محمد اکمل المعروف وحید بہبہانی (م ۱۲۰۶ ھ) یہ کتاب شرح کے نام سے جانی جاتی ہے لیکن اس کے مؤلف نے اپنی تالیفات کی فہرست میں اسے الوافی پر حاشیہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔
  6. الحاشیۃ علی الوافی، فضل اللہ بن محمد شریف کاشانی. اس میں الوافی کی کتاب عقل اور علم پر حاشیہ لکھا گیا ہے اور اکثر و بیشتر حدیث کی شرح کے بارے میں اظہار نظر کیا گیا ہے اور کبھی اسناد کے بارے میں بھی بحث کی ہے اور رجب ۱۱۰۷ ھ کو اس کی تدوین سے فارغ ہوئے۔ اس حاشیہ کو مؤلف نے ہی کتاب کی شکل دیا اور بعض تعلیقات کے ہمراہ مدرسہ سپہسالار کی لائبریری میں موجود ہے۔
  7. تعلیقۃ علی الوافی، احمد بن محمد، علم الہدی کاشانی.
  8. الحاشیۃ علی الوافی، محمد رضا بن محمد مؤمن قمی.
  9. الحاشیۃ علی الوافی، میرزا حسن بن عبدالرزاق لاہیجی(م ۱۱۲۱ ھ)
  10. شرح الوافی، سید محمد جواد بن محمد حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ(م ۱۲۲۶ ھ) کے مولف، اس کتاب میں الوافی کی کتاب طہارت کی شرح اور مولف کے استاد بحرالعلوم کے درس کی تقریرات شامل ہیں جو الوافی کے متن اور روایات کے سند کے بارے میں دئے گئے ہیں اور تقریرات کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔
  11. الحاشیۃ علی الوافی، سید محسن بن حسن اعرجی(م ۱۲۲۷ھ)، یہ کتاب الوافی کے ابتدائی حصے کو شامل ہے اور ان کے کسی پوتے نے لکھا ہے۔
  12. شرح طہارۃ الوافی، محمد تقی بن محمد رحیم تہرانی(م ۱۲۴۸ھ) ان کے استاد بحر العلوم کے درس کی تقریرات ہیں۔
  13. الحاشیۃ علی الوافی، ابوالحسن شعرانی.[8]

معجم، منتخب، مستدرک اور فہرست

  1. المعجم المفہرس لالفاظ احادیث کتاب الوافی، علی رضا برازش.
  2. الشافی المنتخب من الوافی، محمد محسن بن مرتضی فیض کاشانی(۱۰۰۷- ۱۰۹۱ھ)؛ مصنف نے تکراری اور معارض احادیث اور راویوں کے اسانید کو کتاب الوافی سے نکالا ہے اور صرف محکمات کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور مؤلف نے الشافی کو دو جلدوں میں مرتب کیا ہے اور ہر جلد میں بارہ کتابیں اور ان کے مختلف ابواب ذکر کیا ہے۔
  3. نوادر الأخبار (نوادر فیض)؛ فیض کاشانی نے الشافی کو الوافی سے منتخب کر کے لکھنے کے بعد الشافی پر ایک تکملہ اور مستدرک بھی لکھا ہے جس کو نوادر نام دیا ہے۔ آپ نے وہ محکم روایات جو کتب اربعہ کے علاوہ دیگر کتابوں میں ہیں اور الوافی اور الشافی میں ذکر نہیں ہوئی ہیں انہیں نوادر میں جمع کیا ہے۔ شیخ حسین عصفوری نے اسے الحدائق النواظر کے نام سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
  4. مستدرک الوافی، محمد ہادی بن مرتضی، فیض کاشانی کے بھائی کا پوتا
  5. فہرست الوافی، علم الہدی، محمد بن محسن فیض کاشانی(م ۱۱۱۵ ق).[9]

حوالہ جات

 

  1. فیض کاشانی، الوافی، ۱۳۶۵ش، مقدمہ مصحح
  2. فیض کاشانی، الوافی، ۱۳۶۵ش، ج۱، ص۷
  3. تہرانی، الذریعہ، ج۱۴، ص۱۶۵
  4. فیض کاشانی، الوافی، ۱۳۶۵ش، ج۱، ص۴ – ۷
  5. تہرانی، الذریعہ، ج۲۵، ص۱۴
  6. علی‌محمد میرجلیلی، سیری در کتاب الوافی، ۱۳۸۷ش.
  7. علی‌محمد میرجلیلی، سیری در کتاب الوافی، ۱۳۸۷ش.
  8. تہرانی، الذریعہ، ج۶، ص۲۲۹ – ۲۳۱. ج۱۴، ص۱۶۵
  9. تہرانی، الذریعہ، ج۱۶، ص۳۹۹. ج۲۱، ص۶

مآخذ

  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، اصفہان، مکتبۃ أمیرالمؤمنین، ۱۳۶۵ش.
  • تہرانی، آقابزرگ، الذریعۃ، بیروت، دارالاضواء.
  • میرجلیلی، علی محمد، سیری در کتاب الوافی، علوم حدیث، بہار ۱۳۸۷ – شمارہ ۴۷.
تبصرے
Loading...