اقامت

اقامت،اذکار کا وہ مجموعہ ہے جسے اذان کے بعد نماز کی تیاری کے طور پر کہا جاتا ہے۔نماز سے پہلے اس کا کہنا ضروری نہیں مستحب ہے اگرچہ اس کی تاکید اس قدر کی گئی ہے کہ اگر رکوع سے پہلے یاد آجائے تو نماز کو توڑ کر اسے کہا جا سکتا ہے ۔

فصولِ اقامت

اقامت درج ذیل جملوں پر مشتمل ہوتی ہے :

اَللّهُ اَکبَرُ (۲ مرتبہ)

اَشْهَدُ اَنْ لا اِلَهَ إِلاَّ اللّهُ(۲ مرتبہ)

اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّهِ(۲ مرتبہ)

اَشْهَدُ أَنَّ عَلیًا وَلِیُ اللّهِ(۲ مرتبہ)[1]

حَیِّ عَلَی الصَّلاةِ(۲ مرتبہ)

حَیِّ عَلَی الْفَلاحِ(۲ مرتبہ)

حَیِّ عَلی خَیرِ الْعَمَلِ(۲ مرتبہ)

قَد قامَت الصَّلَوةُ(۲ مرتبہ)

اَللّهُ اَکبَرُ(1 مرتبہ)

  1. قد قامت الصلاة کا جملہ نماز کے قائم ہونے کی خبر دیتا ہے اور اسے صرف اقامت میں کہا جاتا ہے ۔
  2. تکبیر اذان کے آغاز میں چار مرتبہ کہی جاتی ہے لیکن اقامت میں دو مرتبہ کہی جائے گی نیز تہلیل کے بعد اقامت میں تکبیر ایک مرتبہ کہی جائے گی ۔

شہادت ثالثہ

اشهد ان علیا ولی الله قدیم عرصہ سے اذان اور اقامت میں کہا جاتا ہے لیکن فقہی اور حدیثی مصادر میں اس کے جزو ہونے کی تصریح نہیں ہے[2] اگرچہ شیخ طوسی نے اجمالی طور پر اس کے اذان میں روایات شاذہ کی تعبیر کے ساتھ ذکر ہونے کا ذکر کیا ہے نیز اضافہ کیا کہ فقہا نے ان پر عمل نہیں کیا۔

اہل سنت

  • حنفیوں کے نزدیک اقامت کے تمام اذکار 2 مرتبہ کہے جاتے ہیں۔
  • نزد مالکیوں تمام اذکار ایک مرتبہ کہے جاتے ہیں۔
  • قول حنبلیوں اور شافعیوں کے نزدیک قول مشہور قد قامت الصلاة دو مرتبہ اور دیگر اذکار ایک ایک مرتبہ کہے جاتے ہیں [3]

احکام

  • نماز سے پہلے اقامت کہنا مسنت مؤکد ہے ۔
  • جو شخص نماز جماعت میں حاضر ہو تو اسے اذان و اقامت کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

مربوط لنک

حوالہ جات

  1. یہ اقامت کا جزو نہیں ہے ۔
  2. مثلا؛ رک: ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج ۱ ص۱۸۹۱۸۸، طوسی، النہایہ، ص۸۰
  3. رک: طوسی، ج۱، ص۹۱؛ ابن ہبیره، ج۱، ص۸۱

منابع

  • طوسی، الخلاف، تہران، ۱۳۷۷ق؛
  • ابن ہبیره، یحیی، الافصاح، حلب، ۱۳۶۶ق/۱۹۴۷م.
تبصرے
Loading...