اسما بنت عمیس

اسماء بنت عمیس، حضرت پیغمبرؐ کے صحابی کی زوجہ تھی جنہوں نے اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ اسلام قبول کیا۔ آپ کا شمار ابتدائی مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ جعفر کی شہادت کے بعد ابوبکر سے نکاح کیا اور ابوبکر کی وفات کے بعد امام علیؑ کی زوجہ بن گئیں۔ اسماء محمد بن ابی بکر کی والدہ ہیں۔ سنہ 40 ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔

نسب اور ولادت

آپ کے والد عمیس بن معد کا تعلق قحطانی بنی خثعم بن انمار کے قبیلے سے تھا اور والدہ ہند تھا جو عون بن زہیر چمیری کی بیٹی تھیں۔[1] اور آپکی تاریخ ولادت کے بارے میں صحیح اطلاع نہیں ملتی ہیں۔

اسلام اور حبشہ کی جانب ہجرت

آپ نے اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ اسلام قبول کیا اور آپ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں۔[2]

بعثت کے ساتویں سال اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[3] اور سن 7 ہجری کو دوسرے مہاجروں کے ہمراہ مدینہ لوٹ آئیں اور سنہ 8 ہجری کو آپ کے ہمسر جنگ موتہ میں شہید ہو گئے۔

اس کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آ گئیں اور حجۃ الوداع کے سال میں محمد کی پیدائش ہوئی۔ وہ پیغمبرؐ کی بیماری کے وقت انکے کے پاس موجود تھیں [4]

ابوبکر کی وفات کے بعد امام علیؑ سے شادی کر لی اور کلبی کے بقول[5]اس شادی کا ثمرہ دو فرزند یحیی اور عون تھے۔[6] یحیی بچپن میں ہی دنیا سے چلا گیا[7] لیکن عون کے بارے میں اختلاف ہے اور بعید نہیں کہ یہ عون بن جعفر کے ساتھ مشتبہ ہو گیا ہو [8] اس لئے علما نے اسے عون کی بجائے محمد کے نام سے ذکر کیا ہے۔

فرزند

مہاجرت کے دوران تین فرزند عبداللہ، محمد اور عون پہلے شوہر جعفر بن ابی طالب سے پیدا ہوئے۔ [9]

دوسرے شوہر ابوبکر سے حجۃ الوداع کے سال محمد پیدا ہوا اور اور تیسرے شوہر امام علیؑ سے دو بیٹے یحیی اور عون دنیا میں آئے۔[10]

وفات

اسما کی وفات کی صحیح تاریخ موجود نہیں. اگرچہ دو تاریخیں ٣٨ ق یا ٦٠ ق بعض منابع میں بیان کی گئی ہیں۔ [11] اور ایک جگہ پر امام علیؑ کی شہادت کے بعد ان کی زندگی کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[12]

حضرت فاطمہؑ کے کفن و دفن میں حضور

اسماء کی زندگی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ امام علیؑ کے خاندان میں داخل ہوئی اور ان افراد میں سے تھی جو حضرت فاطمہؑ کے کفن و دفن کے وقت حاضر تھے۔[13] اور حتی کہ کہا گیا ہے کہ حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی شادی کے وقت بھی حاضر تھیں لیکن اگر ٢ ق کو شادی کی تاریخ ہو تو ناممکن لگتا ہے کہ اسما حبشہ سے واپس آ گئیں ہوں۔[14]

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیؑ کے خاندان کے ساتھ صادقانہ تعلقات کی وجہ سے ہی شیعہ منابع میں اسماء کو نیک کردار سے یاد کیا گیا ہے اور بعض روایات کے مطابق امام باقرؑ اور امام صادقؑ نے بھی آپکی تعریف کی ہے۔[15]

نقل حدیث

اسماء نے حضرت پیغمبرؑ سے احادیث روایت کی ہیں [16] اور آپ سے آپ کے فرزند عبداللہ بن جعفر، سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر اور دوسرے افراد نے روایت کی ہیں۔ [17]حضرت علیؑ کی بیٹی فاطمہ نے حدیث منزلت [18]اور و رد الشمس [19] کو آپ سے ہی روایت کی ہے۔

یعقوبی [20] نے اسماء بنت عمیس کے پاس موجود کتاب سے رسول گرامی کا ارشاد نقل کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب رسول اللہ کے فرامین پر مشتمل تھی۔ اسما کے رسول خدا کے رشتے داروں میں سے ہونے کی بنا پر رسول اللہ کے زمانے میں ایسی کتاب کا ہونا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے لیکن اسکے متعلق دوسرے تاریخی اور سیرت کے مآخذ خاموش ہونے کی وجہ سے اس کتاب کی جزئیات زیادہ بحث وتمحیص کی طلبگار ہیں اور اسما کی طرف اس کتاب کی نسبت کا ثابت ہونا بعید نظر نظر آتا ہے۔ [21]

حوالہ جات

  1. کلبی، ہشام، نسب معدو الیمن الکبیر، ج۱، ص۳۵۶، و ص۳۵۸
  2. مراجعہ کریں: ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، ص۱۴۳؛ ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۲۸۰
  3. ابن ہشام، عبد الملک، السیرة النبویہ، ج۱، ص۳۴۶
  4. مراجعہ کریں: کلبی، ہشام، نسب معدو الیمن الکبیر، جلد ۴، ص۳۰۰؛ بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۴۵
  5. کلبی، ہشام، نسب معدو الیمن الکبیر، جلد ۴، ص۳۰۰
  6. ملاحظہ کریں: ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۲۸۰، و ص۲۸۵؛ بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۴۷
  7. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۲۱
  8. مراجعہ کریں: ابن قتیبہ، عبداللہ، المعارف، ص۲۱۰؛ ابن عبد البر، یوسف، الاستیعاب، جلد ۴، ص۱۷۸۵؛ قس: طبری، تاریخ، ج۵، ص۱۵۴
  9. کلبی، ہشام، نسب معد و الیمن الکبیر، ج۱، ص۳۵۸
  10. منتہی الامال، ج۱، ص۲۹۸-۲۹۹
  11. نک: صفدی، خلیل، الوافی بالوفیات، ج۹، ص۵۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۷ (۴)، ص۳۳۱
  12. ن ک: ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۸۷؛ ابن حجر عسقلانی، احمد، تقریب التہذیب، ج۲، ص۵۸۹
  13. نک: بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۵؛ حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک، ج۳، ص۱۶۳-۱۶۴
  14. نک: حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک، ج۳، ص۱۵۹؛ گنجی، محمد، کفایۃ الطالب، ص۳۰۲-۳۰۳؛ قس: اربلی، علی، ج۱، ص۳۶۵-۳۶۷، کشف الغمہ؛ امین، محسن، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۳۰۷
  15. نک: طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ص۶۳-۶۴؛ ابن بابویہ، محمد، الخصال، ج۲، ص۳۶۳
  16. واقدی، محمد، المغازی، ج۲، ص۷۶۶؛ حمیدی، عبداللہ، المسند، ج۱، ص۱۵۸؛ مزی، یوسف، تحفة الاشراف، ج۱۱، ص۲۵۹-۲۶۳
  17. نک: ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۸۷
  18. بن عبدالبر، الاستیعاب(بیروت)، ج۳، ص۱۰۹۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۳۷، ص۲۶۳
  19. مجلسی، بحار الانوار، ج۴۱، ص۱۷۷؛ عاملی، اثبات الہداة، ج۱، ص۴۱۴
  20. یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۰۱
  21. نیز ن ک: S , 2 EI

مآخذ

  • ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۷۸ ع
  • ابن بابویہ، محمد، الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، تقریب التہذیب، بہ کوشش عبد الوہاب عبد اللطیف، بیروت، ۱۳۹۵ق/۱۹۷۵ ع
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر
  • ابن عبد البر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۰ع
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ ع
  • ابن قتیبہ، عبدالله، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشیہ، قاہره، ۱۳۸۸ق/۱۹۶۹ ع
  • ابن کثیر، البدایہ.
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیره النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۱۳۵۵ق/۱۹۳۶ ع
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، بہ کوشش احمد صقر، ۱۹۴۹ ع
  • اربلی، علی، کشف الغمہ، تبریز، ۱۳۸۱ق.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمید الله، قاہره، ۱۹۵۹ ع
  • حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک، حیدر آباد دکن، ۱۳۴۱ق.
  • حمیدی، عبد الله، المسند، بہ کوشش حبیب الرحمان اعظمی، حیدر آباد دکن، ۱۳۸۰-۱۳۸۲ق.
  • ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ ع
  • صفدی، خلیل، الوافی بالوفیات، بہ کوشش فاناس، بیروت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ ع
  • طبری، تاریخ؛ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، اعلمی، بیروت، ۱۴۲۵ق.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال، اعلام التقی، تابستان ۱۳۸۲ش.
  • کلبی، ہشام، نسب معدو الیمن الکبیر، بہ کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ ع
  • گنجی، محمد، کفایۃ الطالب، بہ کوشش محمد ہادی امینی، تہران، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • مزی، یوسف، تحفۃ الاشراف، بمبئی، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ ع
  • واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ ع
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، بیروت، دار صادر.
  • EI2,S.

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...