ابوبصیر (ضد ابہام)

ابوبصیر (ضد ابہام)

اَبوبَصیر، چند راویوں کےدرمیان ایک مشترک عنوان ہے جو یحیی بن ابی‌ القاسم اسدی، لیث بن بَخْتَری مرادی، ابوبصیر عبداللہ بن محمد اسدی کوفی، ابوبصیر یوسف بن حارث اور ابوبصیر ثقفی کو شامل ہے۔

ابوبصیر روایات میں

بہت ساری امامیہ روایات میں ابوبصیر کا نام کسی سابقہ یا لاحقہ کے بغیر اسناد کے سلسلے میں استعمال ہوا ہے اور دوسرے قرائن سے ہی اس کی شناخت ممکن ہے کہ کونسا ابوبصیر مراد ہے؛ لیکن ابوبصیر صفت کے ساتھ ذکر ہونے والے اسانید کی تعداد انگشت شمار ہے اور بعض دفعہ تو جو صفت یا قید ذکر ہوئی ہے وہ بھی اتنی مضبوط نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے بلکہ اس میں بھی دوسرے سے اشتباہ ہونے کا خدشہ کیا جاسکتا ہے۔
«‌ابوبصیر‌» کا عنوان یحیی اسدی اور لیث مرادی میں مشترک ہونے کی وجہ سے یہ سبب بنا ہے کہ ابوبصیر کی شناخت کے بارے میں تقریبا ابتدائی صدیوں سے ہی شیعہ محدثین اور رجالی علما کے مابین بحث و گفتگو ہوجائے جو آج تک جاری ہے۔ اسی لئے یہ دو ہم عصر اشخاص، جو کہ دونوں کوفہ میں رہتے تھے، کے بارے میں یقینی طور پر بعض موارد میں اب بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

ابوبصیر

شیعہ رجالی اور حدیثی منابع میں یحیی بن ابی‌ القاسم اسدی اور لیث بن بختری مرادی کے علاوہ دوسرے بعض افراد بھی «‌ابوبصیر‌» کے نام سے جانے جاتے ہیں:

ابوبصیر عبداللہ بن محمد اسدی کوفی، امام باقرؑ کے اصحاب میں سے ہیں[1]؛ ابوبصیر یوسف بن حارث امام باقرؑ کے بتری مذہب (وہ لوگ جو زیدی مذہب کے ماننے والے ہیں لیکن خلفاء ثلاثہ کو بھی مانتے ہیں) اصحاب میں سے ہے۔[2]
نیز ابوبصیر ثقفی بھی ان میں سے ایک ہیں۔[3]

ابوبصیر کے بارے میں تالیفات

گذشتہ چند صدیوں میں ابو بصیر کی شخصیت کے بارے میں بہت ساری مستقل کتابیں لکھی گئی جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. ترجمہ ابی بصیر، بقلم سید محمد مہدی بن حسن خوانساری (م ۱۲۴۶ھ)، یہ کتاب، الجوامع الفقہیہ کے ساتھ ۱۲۷۶ھ سنگی چاپ ہوچکی ہے؛
  2. ترجمۃ ابی بصیر و تحقیق احوالہ، بقلم محمد باقر شفتی (م۱۲۶۰ھ)، یہ کتاب مؤلف کے بعض رجالی رسالوں کے ساتھ 1314ھ کو چھپ گئی ہے؛
  3. ترجمۃ ابی بصیر، بقلم محمد ہاشم خوانساری (م ۱۳۱۸ھ)، جو مجمع الفوائد کے ساتھ ۱۳۱۷ھ کو چھپ گئی ہے؛
  4. ترجمۃ ابی بصیر و اسحاق بن عمار، بقلم ابوتراب خوانساری (م ۱۳۴۶ھ)؛
  5. الرسالۃ المبصرۃ فی احوال ابی بصیر، بقلم محمد تقی شوشتری جو مولف کی قاموس الرجالِ میں ملحق ہو کر درج نمبر 11 میں چھپ گئی ہے؛[4]
  6. اسانید ابی بصیر بقلم موسی شبیری زنجانی جس کے خطی نسخے ابھی لائبریری میں موجود ہیں۔

حوالہ جات

 

  1. کشی، محمد، معرفہ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۱۷۴؛ طوسی، محمد بن حسن، رجال، ج۱، ص۱۲۹
  2. طوسی، محمد بن حسن، رجال، ج۱، ص۱۴۱،
  3. خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایہ الکبری، ج۱، ص۳۹
  4. ملاحظہ ہو: آقابزرگ، الذریعہ، ج۴، ص۱۴۷-۱۴۸. آقابزرگ، الذریعہ، ج۱۱، ص۲۲۳

 

مآخذ

  • آقا بزرگ، الذریعہ.
  • کشی، محمد، معرفہ الرجال، اختیار طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ع

بیرونی روابط

 

تبصرے
Loading...