اسلام میں اخوت اور بھائی چارگی

اسلام میں اخوت اور بھائی چارگی

گلچهره جوادی

اسلام کی تعلیمات دلوں میں پیار و محبت کے بیج بونے کے لیے ہیں۔ اوراسلام۔ لوگوں کو تعاون اور ہمدردی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں رونما ہونے والے تاریخی واقعات میں سے مواخات ہے۔

شیخ مفید (1) کے مطابق رمضان المبارک کی بارہویں تاریخ کو پیغمبر اکرم (ص) نے صحابہ کرام کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔ اپنے اور علی (ع) کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔
اسلام اخوت و بھائی چارے، مساوات اور ہم دلی ، باہمی تعاون اور مساوات کا مذہب ہے۔ اور وہ دنیا کے کو خاندان ایک فرد اور ایک دوسرےبھائی کے طور پر جانتا ہے۔
رنگ و نسل، مال ودولت،اقتدار اور دنیاوی القابات کو امتیاز کا سبب نہیں قرار دیتا اور اس نے فاصلوں کو اسلام کی بنیاد پر مٹا دیا ہے، اور “تقویٰ” کو ہی فضیلت اور برتری کا معیار بناکر ایک ایسا اعزاز عطاکیا کہ جو کبھی غرور،تکبر، بدسلوکی اور دوسروں سے دوری کا سبب نہیں بنتا۔
قرآن کریم میں خدا فرما رہا ہے : «إِنَّ هذِهِ اُمَّتُکُمْ اُمَّهً واحِدَهً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ»(۲)
قرآن افراد کے درمیان مال و دولت، عہدہ اور حکومت، آبادی اور تعداد، رنگ و جنس اور رنگ میں تقابل اور مقابلے کا اہتمام نہیں کرتا۔ عرب غیر عرب اور گورے کالے برابر ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ قرآن کی نظر،انسانی بنیاد اور حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں۔ انسانیت اور انسانیت کا کمال ان امور پر منحصر نہیں ہے۔ قرآن جب لوگوں کا موازنہ کرتا ہے تو علم، تقویٰ، عبادت اور ایمان کو فضائل مانتا ہے۔ اسلام اور خدا پر ایمان ایسا رنگ ہے جو مرد و عورت، امیر و غریب، ایشیائی اور یورپی، عرب اور غیر عرب سب کے لیے موزوں ہے۔

قرآن کریم نے اس اخوت کا تذکرہ کیا ہے جو اسلام کے سائے میں مسلمانوں کو عطا ہوا، اور اختلافات اور دشمنیوں کو ختم کر کے دلوں میں محبت ووحدت کاحکم ملااور مسلمانوں کو خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا۔ایک مختصر اور معنی خیز جملہ کے ساتھ کہا گیا ہے کہ “انما الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ » (3).

*صحابہ کرام کے درمیان عقد اخوّت*
دعوت کے آغاز سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی بھائی چارگی کے مسئلہ پر پوری توجہ دی اور اسے امت مسلمہ کے اہم ستون اور ٹھوس بنیاد میں سے ایک سمجھا اور اس طرح دیرینہ رنجشوں اور عداوتوں کو مختلف قبیلوں اور اقوام کے درمیان سے ختم کيا.آپ ص
نے مزید یکجہتی،اسلامی شعور اور دیگر حکمتوں کی بیداری کے لیے جو کام کیے ان میں سے دو اجنبی افراد کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا تھا۔ جیسا کہ آپ نے مہاجرین اور انصار دونوں کے درمیان اخوت کا معاہدہ قائم کیا۔
دو افراد کے درمیان بھائی چارگی قائم ہوئی جو یکساں خیالات اور نظریات کے حامل تھے اور ایسا کرتے ہوئے درحقیقت خاندان، قبیلے اور خانہ بدوش آپس میں جڑ گئے۔

*اخوت کی تکرار*
جیسا کہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے استفادہ ہوتاہے، یہ عمل تکرار ہوا۔
1۔ ایک بار ہجرت کرنے والوں کےدرمیان ، جیسا کہ ابن عمر نے بحار الانوار میں ، جلد 38، نیا ایڈیشن، ج: 68، صفحہ۔ نقل ہواہے۔
۲۔ مدینہ میں، مہاجر اور انصار کے درمیان؛ مدینہ میں داخل ہوتے ہی یہ عمل انجام پایا۔ جیسا کہ ابن ہشام،کتب سیرت اورتاریخی کتابوں میں منقول ہے۔
3.اس آیت کے نزول کے وقت “اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَه» بے شک مومن بھائی بھائی ہیں” جیسا کہ شیخ نے بحار میں بیان کیا ہے۔
4. “مباھلہ کے دن” ۔ جیسا کہ سفینه‌البحار، جلد 1، صفحہ 12 میں بیان کیا گیا ہے۔

*ایک اہم اور دلچسپ موضوع*
ان دوستانہ اور محبت بھرے فضا میں جو موضوع دلچسپ اور اہم ہے وہ وہ انتخاب کاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بھائی بھائی بنایا اور بہت سے مورخین اور راویوں کے مطابق ہم مرتبہ اور برابرلوگوں کوآپس میں بھائی بنایا۔
اسی معیار کے مطابق اپنے لیے اخوت کا انتخاب کرنا تھا۔ اس اعزاز کا حقدار کون ہے؟ اور کون ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہم۔پلہ اور برابر ہو (سوائے نبوت کے)؟ ہاں حضرت علی کے علاوہ کوئی بھی اس مقام کا مستحق نہیں تھا جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا:
«اَنْتَ مِنّی بِمَنْزِلَهِ هارُونَ مِنْ مُوسی اِلاّ اَنَّهُ لا نَبِیّ بَعْدی»اے علی! میری نسبت آپ سے وہی ہے جو موسیٰ کے مقابلے میں ہارون کی تھی ، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
یہ انتخاب وحی اور خدا کے انتخاب پر مبنی تھا۔ خدا نے پیغمبر اکرم(ص) اور علی(ع) کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ جیسا کہ “لیلۃ المبیت” میں، وہ رات جب مشرکین نے پیغمبر کو قتل کرنا چاہا، اور علی نے پیغمبر کے لئے اپنی جان قربان کی اور بستر پر سوئے، جیسا کہ اہل سنت کی مستند کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، خدا نے جبرائیل اور میکاییل کو وحی کے ذریعے کہا:
اَفَلا کُنْتُما مِثْلَ عَلیّ بْنِ اَبی‌طالِب اخَیْتُ بَیْنَهُ وَ بَیْنَ مُحَمَّد» .

*حواله جات*📚
1_مسمار الشيعه شيخ مفيد ص، 28
2_قران مجید سوره النبیاء، 92
3_سوره حجرات آیه 10
4_الغدیر ج 2 ص 48

تبصرے
Loading...