وقف کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

انسانی زندگی میں وقف کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔    وقف کا نظام نہ صرف اسلامی ممالک میں مختلف صورتوں  میں رائج  ہے بلکہ زرتشتی(آتش پرست) کلیمی، مسیحی اور دیگر ادیان کے پیروکاروں  میں بھی کسی نہ کسی شکل میں  وقف  کا نظام موجود ہے۔ لہذا وقف کو “بشریت کی فلاح و بہبود کا ایک بہترین وسیلہ” قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس کے سائے میں نہ فقط مسلمان بلکہ مسیحی،کلیمی،زرتشتی،یہاں تک کہ میڑیالیسٹ اور لائیک بھی اس کے فوائد سے مستفیض ہورہے ہیں۔  وقف کی تعریف یہ ہے کہ ملکیت باقی رکھتے ہوئے جائداد کا نفع سب کے لیے یا کسی خاص طبقے کیلئے خاص کردیاجائے۔نہ اس کو بیچا جاسکتاہے اور نہ منتقل کیاجاسکتا ہے۔

اسلام میں سب سے پہلے وقف پیغمبرحضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کیا ۔آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے سات باغوں کووقف کیا جو اسلام میں پہلاوقف خیری تھا۔یہ سات باغات’’مخیریق‘‘یہودی کے تھے جوجنگ احدمیں مسلمان ہوا تھا اور مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئےشہید ہوگیا تھا۔اس نے وصیت کی تھی کہ اگر میں جنگ میں ماراجاؤں تومیرے اموال حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لیے ہوں گےاور آپ جہاں چاہیں اللہ کی مرضی سے صر ف کریں۔[1]

تاریخی شواہد کے اعتبار سے بھی انسان کے لئے اپنی جاویدانگی اور ہمیشگی کے لئے ایک منطقی اور عقلی راہ حل “وقف” کے علاوہ  دوسری اور کوئی راہ میسر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ  دین مبین اسلام  نے بھی  انسان کی بقاء، بشر دوستی، بھلائی اور نیک مقاصد  کے حصول کے لئے بہترین راہ”وقف”کو قرار دیاہے۔ اسی لئے  وقف کا یہ نیک عمل ، ایمان و  خلوص  سے سرشار انسانوں کا وطیرہ رہا ہے ۔ ایسے افراد  انسانیت کی بھلائی، معاشرے کی فلاح و بھبودی  اور دینی  و مذہبی امور کی ترقی کی خاطر  اپنے لئے سب سے پسندیدہ اموال و جائیداد کا ایک خاص حصہ خدا کی راہ میں وقف کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کا شرف پاتے ہیں

معاشرتی لحاظ سے موقوفات کا کردار مراکزِ دینی میں  اضافہ کرنا،  ان کی ضروریات  کو فراہم کرنا، عظیم  اسلامی دانشوروں کو اقتصادی و  مالی توانائی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت بھی میسر کرنا ہے  کہ ایک اجتماعی اور معاشرتی ادارے کے عنوان سے نہ فقط اسلامی معاشرے کی اقتصادی مشکلات کو حل کرے بلکہ  اجتماعی بُحران اور سخت ترین معاشرتی مسائل میں  بھی موقوفات سے مدد لینا ہے۔  لوگوں کے لئے امن و امان کی پناہ گاہ اور معنوی حمایت شمار کیا جاسکتا ہے۔

 کتبِ احادیث کی بہت سی روایات  میں وقف کو صدقے سے تعبیر کیا ہے،  علاوہ ازیں شیعہ اخلاقی کتابوں  میں بھی وقف کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ مذہب شیعہ کی گراں قدر حدیث کی  کتاب “وسائل الشیعہ” میں وقف کے لئے ایک مخصوص باب قرار دیا گیا ہے اور اس میں ائمہ ؑ کی بہت سی روایتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔[2]   

۱: قال رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم): ان مما يلحق المؤمن من عمله و حسناته بعد موته علما نشره و ولدا صالحا ترکه، و مصحفا ورثه او مسجدا بناه. او بيتا لابن السبيل بناه او نهرا اجراه، او صدقة اخرجها من ماله في صحته و حياته و تلحقه من بعد موته۔[3]

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: انسان کے  اس دنیا سے رحلت کرنے کے  بعدبھی چند چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہے گا۔

   ۱ ۔ لوگوں میں علم کی روشنی پھیلا کر جائے،   ۲ ۔ نیک اولاد کی پرورش کر جائے،    ۳ ۔ قرآن کو ارث چھوڑ کر جائے،

۴ ۔ مسجد بنا ئے،      ۵ ۔ بے پناہ مسافروں کے لئے رہائش کا انتظام کرے،    ۶ ۔ پانی کی نہر بنائے اور لوگ اس سے فائدہ حاصل کرے،

۷ ۔  اپنی زندگی میں  اپنے ہی مال میں سے  کوئی صدقہ اللہ کی راہ میں دے کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔

   ۲ : ایک اور روایت میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی راستے میں مسافرین کے لئے پناہ گاہ بنائے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ایسی سواری پر سوار کرے گا جس کو گوہر سے سجایا گیا ہوگا اور اس  کے چہرے کا  نور باقی تمام انوار پر نمایاں ہوگا، یہاں تک کہ اس کا نور حضرت ابراہیم ؑ کے نور کے برابر میں قرار پائے گا، اس وقت لوگ سوال کریں گے کیا یہ کوئی فرشتہ ہے کہ اس قدر نور افشانی کررہا ہے؟ ہم نے کبھی ایسے  نور کو نہیں دیکھا  نیز اس کی شفاعت سے ہزاروں انسان بہشت میں داخل ہوں گے۔ [4]

 ۳: قال  الامام علی: ابتغاء وجه الله ليولجني الله به الجنة و يصرفني عن النار و يصرف النار عن وجهي يوم تبيض وجوه و تسود وجوه۔  ایک وقف نامے میں آپؑ نے وقف کرنے  کے انگیزے کو یوں بیان کیا ہے:

        میں نے صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر وقف کیا ہے تاکہ اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ مجھے بہشت نصیب کرے اور آتشِ جہنم سے مجھے دور رکھے، اور آتش کو بھی مجھ سے دور رکھے، جس دن بعض لوگوں کے چہرے تابناک ہوں گے اس کے برعکس بعض کے چہرے سیاہ ہوں گے۔[5]

4: مہران ابن محمد نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے: امام صادق ؑ نے اپنے آخری ایام میں  اپنی وصیّت میں  فرمایا: عن محمد بن مهران قال سمعت اباعبدالله (ع): اوصي ان يناح عليه سبعة مواسم فاوقف لکل موسم مالا ينفقمیری رحلت کے بعد ایام ِحج میں سات  سال تک میرے لئے عزاداری کا اہتمام کیاجائے اور امام ؑ نے ہر سال کے لئے کچھ مال وقف کیا تاکہ اس سے خرچ کیا جاسکے۔[6]

5. امام کاظم (ع)فرماتے ہیں: قال الکاظم (ع): ان الأرض لله تعالي جعلها وقفا علي عباده
’’بے شک تمام زمین اللہ کی ملکیت میں ہے اور اللہ نے اسے اپنے بندوں پر وقف کر چکا ہے‘‘۔[7]

6۔ امام علی(ع) فرماتے ہیں: من بذل بره اشتهر ذکره
’’اگر کسی نے اپنی نیکی سے لوگوں کو فائدہ پہونچایا تو خداوند عالم اسے مشہور کردے گا (اسکی یاد کو ہمیشہ باقی رکھے گا)‘‘۔[8]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] سيره نبويه، ج۲، ص 33۴۔

[2] جواهر جديد، ج 28، ص 3

[3] نهج الفصاحة، ص 237، ح 906

[4] وسائل الشیعہ/ج 11، ح1

[5] دعائم الاسلام جلد 2 صفحه 341

[6] من لا یحضرہ الفقیہ،ج ۴، 244۔

[7] وسائل الشیعہ، ج25، ص 434۔

[8] غرر الحکم و درر الکلم، ص628، ح 976۔

تبصرے
Loading...