نھج البلاغہ کا ادبی مقام علماء کی نظر میں

چکیده:یوں تو نھج البلاغہ علم ومعرفت ، اخلاق وتربیت ، اور انسانی زندگی سے متعلق تمام شعبوں میں انسان کی ہدایت کا وسیلہ ہے اور امیرالمومنین (ع) کی عابدانہ، زاہدانہ، عالمانہ اور شجاعت مندانہ زندگی کا عملی مظہر ہے لیکن جب دنیا کے ادباء ادبی نظر سے دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ نھج البلاغہ ادب ،فصاحت اور بلاغت پر مشتمل کتاب ہے

نھج البلاغہ کا ادبی مقام علماء کی نظر میں

یوں تو نھج البلاغہ علم ومعرفت ، اخلاق وتربیت ، اور انسانی زندگی سے متعلق تمام شعبوں میں انسان کی ہدایت کا وسیلہ ہے اور امیرالمومنین کی عابدانہ، زاہدانہ، عالمانہ اور شجاعت مندانہ زندگی کا عملی مظہر ہے لیکن جب دنیا کے ادباء ادبی نظر سے دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ نھج البلاغہ ادب ،فصاحت اور بلاغت پر مشتمل کتاب ہے
ہم ذیل میں بعض اہم  شخصیات کے اقول نقل کرتے ہیں
١۔ آیت اﷲ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ فصاحت، بلاغت اور فوق العادہ الفاظ کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ
ایک ایسی لغت تر تیب دی جائے جو صرف نہج البلاغہ کے دقیق کلمات کی وضاحتوں پر مشتمل ہو۔
2۔ اسلوب نہج البلاغہ کے سلسلہ میں مشہور استاد شیخ محمد عبدہ( مصری ) جو خود بھی جامع نہج البلاغہ ہیں کہتے
ہیں کہ ہر خطیب اور مصنف کے لئے نہج البلاغہ کا مطالعہ اس کے تجسس کے ہدف کو پورا کرسکتا ہے ۔ اس کتاب میں تر غیب، سیاست، اصول تمدن، اجتماعی اور انفرادی حقوق، قوانین عدالت، پندو نصیحت کے بشمول ہر کوئی عنوان جو انسان کے ذہن میں آسکتا ہے موجود ہے۔
3 استاد محمد حسن نائل المرصفی کہتے ہیں۔”نہج البلاغہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علی ہدایت ،
فصاحت اور عقل کابہترین نمونہ اور قرآنی معجزہ ہے۔ جب بھی میں اس کتاب کا مطالعہ کرتا
ہوں اپنے میں ایک تغیر محسوس کرتا ہوں۔ ”
4۔ اور پھر نہج البلاغہ کی شرح نے جس ابن ابی الحدید معتزلی کو معتبر بنادیا وہ رقم طراز ہے (حوالہ محمد ابو الفضل
ابراہیم بشرح نہج البلاغہ جلد ١ ص ٧) کہ اپنی بے مثال پذیرائی ، الفاظ کی خوبصورت، معنوی جامعیت اور
زبان کی سلاست نے اس کتاب کو عربی زبان کے خوبصورت نثروں میں ایک بر تر اور اولین مقام دیا ہے۔
5۔ شیخ ناصف یازجی اپنے فرزند ابراہیم کو ہدایت کرتے ہیں کہ اگر دانش، ادب ، انشاء اور نگارش میں
دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا ہو تو قرآن اور نہج البلاغہ کو از بر کرو۔
6۔ محمد امین نواری کہتے ہیں ” علی تمام قرآن کے حافظ تھے اور اس کے اسرار سے واقف تھے قرآن ان کے
گوشت و خون میں سرائیت کر گیا تھا۔ اگر قاری چاہتا ہے کہ ان مطالب کو سمجھے تو نہج البلاغہ پڑھے۔”
7 معروف شاعر ابو عثمان بن بحر جاحظ ( سن وفات ٣٠٠ھ ) نے بر ملا اعتراف کیا ہے کہ قرآن اور قول پیغمبر کے سوا ہر کلام، خط اور مقالہ میں نے پڑھا یا سنا ہے اس کے برابر یا اس سے بہتر پیش کر سکتا ہوںلیکن میں ہر طرح کی کوشش کے باوجود اپنے آپ میں کلمات امیر المومنین کی برابری کی سکت نہیں پاتا ۔
8۔ مصر کے ڈاکڑ ذکی مبارک کہتے ہیں کہ ”یہ میرا اعتقاد ہے کہ نہج البلاغہ پر غور و فکر انسان میں توانائی ، علم اورعظمت روح پیدا کرتی ہے کیونکہ کہ یہ کتاب ایک ایسے بزرگ انسان کی ہے جو تمام مشکلات کے باوجودشیر کے ارادہ کی طرح مستحکم تھا۔ ”

 

تبصرے
Loading...