مقامِ امامت کے ادراک سے لوگوں کی عاجزی

امامت ایک ایسا منصب اور مقام ہے جس کا ادراک بہت آسان نہیں ہے۔

مقامِ امامت کے ادراک سے لوگوں کی عاجزی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:إِنَّ الْإِمَامَةَ أَجَلُّ قَدْراً وَ أَعْظَمُ شَأْناً وَ أَعْلَى مَكَاناً وَ أَمْنَعُ جَانِباً وَ أَبْعَدُ غَوْراً مِنْ أَنْ يَبْلُغَهَا النَّاسُ بِعُقُولِهِمْ أَوْ يَنَالُوهَا بِآرَائِهِمْ أَوْ يُقِيمُوا إِمَاماً بِاخْتِيَارِهِمْ‏”، “یقیناً امامت اس سے زیادہ جلیل القدر اور عظیم الشان اور بلندتر اور منیع اور گہری ہے کہ لوگ اپنی عقلوں کے ذریعہ اس تک پہنچ سکیں یا اپنے نظریات سے اس تک پہنچ سکیں یا اپنے انتخاب سے کوئی امام قائم کرسکیں”۔ [عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217]۔ اس فقرہ میں حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے امامت کی بلندی کے لئے پانچ صفات بیان فرمائی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ لوگوں کی عقلیں مقام امامت کے ادراک سے اور امام کے انتخاب سے عاجز ہیں۔ امامت کا مقام، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانشینی کا مقام ہے اور امام، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا خلیفہ اور جانشین ہے۔ خلیفہ کو مستخلف عنہ (یعنی جس کا خلیفہ ہے) کا ہم پلہ ہونا چاہیے۔ جو امام معصوم، آنحضرتؐ کا جانشین ہو اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ احکام دین کی تشریح کرے اور ان کو نافذ کرے۔ ایسے شخص کی پہچان اور انتخاب سے سب لوگ عاجز ہیں۔ لہذا صرف اللہ تعالی، امام کو مقرر کرسکتا ہے۔
حوالہ
[عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217، شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378ش]

تبصرے
Loading...