قصاص کا فلسفہ قرآنِ کریم کی روشنی میں

’’قصاص‘‘ کا فلسفہ قرآنِ کریم کی روشنی میں

«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ أَخِیهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِیمٌ»

’’اے ایمان والو! تم پر (عمداً قتل کیے جانے والے) مقتولین کے بارے میں قصاص (کا حکم) لکھ دیا گیا ہے؛ آزادشخص کے بدلے آزاد اورغلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، اب اگرکسی (قاتل) کو اپنے دینی بھائی (مقتول کے وارث) کی طرف سے معافی مل جائے (کہ وہ پورا حقِ قصاص یا اس کا بعض حصہ معاف کردے یا دیت کا مطالبہ کرے) تو (قاتل کو چاہیے کہ دیت ادا کرنے میں) نیکی کی اتباع کرے اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو پورا پورا ادا کردے۔ یہ (حکم کہ مقتول کا وارث قصاص کرنے یا دیت لینے میں اختیار رکھتا ہے) پروردگارِ عالم کی طرف سے تمہارے حق میں تخفیف اور رحمت ہے پس اب جو شخص (قاتل کو معاف کردینے کے بعد) زیادتی کرے گا اس کے لئے بہت دردناک عذاب ہے۔‘‘

«وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرینَ»

’’اور اگر تم (قصاص کرنے میں) ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر سختی کرو جس قدر انہوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو (اور اُسے معاف کردو یا دیت لے کر راضی ہو جاؤ) تو صبرکرنا  بہرحال صبر کرنے والوں کے لئے سب سے بہتر ہے۔‘‘

«لَئِن بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ یَدِیَ إِلَیْکَ لَأَقْتُلَکَ إِنِّی أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ»

’’(ہابیل نے قابیل سے کہا:) اگر تم میری طرف قتل کرنے کے لئے ہاتھ بڑھاؤ گے تب بھی میں تمہاری طرف ہرگز اپنا ہاتھ نہ بڑھاؤں گا کہ تمہیں قتل کروں (اگرچہ میں اپنا دفاع کروں گا) بےشک میں عالمین کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔‘‘

«الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَیْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ»

’’ ماہِ حرام (رجب المرجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام) ماہ حلال کے مقابلے میں ہیں (اور ان میں جنگ و جدال کی اجازت نہیں ہے لیکن اگر کوئی ان حرام مہینوں کی حرمت شکنی کرے اور ان میں جنگ کا آغاز کردے تو تمہیں بھی چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کرو) اور تمام محترم چیزیں بھی (جیسے حرم، مسجد الحرام اور جان و ناموس مومنین ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں اور) قصاص رکھتی ہیں لہٰذا اب جو بھی تم پر ظلم و زیادتی کرے (اور حرمت شکنی کرے) تو تم بھی ویسا ہی برتاؤ کرو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ بدلہ لینے میں حدّ سے تجاوز نہ کرو) اور جان لو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘

سوال: اسلام اور قرآنِ کریم کے نقطۂ نظر سے ’’قصاص‘‘ کا فلسفہ کیا ہے؟

اجمالی جواب:

قصاص، اسلام میں جرم و سزا سے متعلق احکام اور قوانین میں سے ایک حکم اور قانون ہے کہ جسے قرآنِ کریم انسانی معاشرے کے لیے مایۂ حیات سمجھتا ہے۔ شرعِ مقدّس نے عدل و انصاف سے دور اندھے انتقام کا رستہ بند کرنے، نیز ظالموں اور مجرموں کو شہریوں کے قتل، مار پیٹ اور زخمی کرنے سے روکنے کے لیے قصاص کے حکم اور قانون کو بنایا ہے۔ صحیح و سالم اور محفوظ اجتماعی زندگی عمومی امن و امان، راحت و آسائش اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے نتیجے ہی میں حاصل ہوتی ہے اور عمومی سکون و آسائش ایک اجتماعی زندگی کے اصولوں اور ارکان کی پاسداری کے صدقے میں نصیب ہوتی ہے اور قصاص کا قانون معاشرے کے اہم رکن یعنی انسانوں کی جان کو ظالموں اور مجرموں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

تفصیلی جواب:

اسلام میں جرم و سزا سے مربوط قوانین میں سے ایک قانون ’’قصاص‘‘ ہے۔ لغت میں قصاص ’’کسی چیز کے اثر کے پیچھے جانے‘‘ کے معنی میں ہے اور اصطلاح میں جرم کے اَثر کے پیچھے اس طرح سے جانے کے معنی میں ہے کہ قصاص لینے والا وہی کام اُس مجرم کے ساتھ کرے جو اُس (مجرم) نے اِس (قصاص لینے والے) کے ساتھ کیا ہے۔

قصاص اپنی تشریع کے دَور میں بھی اور ہمارے آج کے زمانے میں بھی انتہائی ترقی یافتہ اور انسانی قانون ہے۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اپنی کتاب ’’تفسیرِ نمونہ‘‘ میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۱۷۹ کے ذیل میں جو کہ قصاص کے فلسفے کو بیان کر رہی ہے، لکھتے ہیں: ’’زمانۂ جاہلیت کے عربوں کی رسم اور عادت یہ تھی کہ اگر ان کے قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا تو وہ یہ فیصلہ کرتے کہ جس حد تک ان کے پاس طاقت ہے وہ قاتل کے قبیلے کے لوگوں کو قتل کریں اور یہ فکر ان کے اندر اس حد تک راسخ ہو چکی تھی کہ وہ ایک شخص کے قتل کے بدلے میں قاتل کے پورے قبیلے کو تہہِ تیغ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس نے قصاص کے عدل و انصاف پر مبنی حکم کو بیان فرمایا۔‘‘ یہ صورتحال وسیع پیمانے پر قبیلوں کے درمیان دشمنی اور بُغض و کینے پر منتج ہوتی تھی۔

لیکن اسلام نے اندھے انتقام کی جگہ قصاص کے قانون کو پیش کیا۔ ایک طرف تو قصاص کو ماورائے عدالت روش سے ہٹا کر قاضی اور عدالت کے سامنے پیش کیا اور اس طرح اسے ایک غیر قانونی روش سے ایک ایسے عمل میں تبدیل کیا کہ جرم، مجرم اور جرم کی مقدار کی شناخت کے لیے پہلے عدالت تشکیل دی جائے تاکہ ہر قسم کی سزا عادلانہ طور پر جرم کی مقدار کی مناسبت سے دی جائے اور دوسری طرف اُس جاہلانہ رسم کو انتقامی شکل سے خارج کیا اور قصاص میں تبدیل کیا اور اس لاقانونیت کا خاتمہ کیا کہ جس میں اس زمانے کا معاشرہ گرفتار ہو چکا تھا۔ ایک مقتول کے بدلے میں قاتل کے قبیلے کے کئی افراد کو قتل کرنا، ایک طرح کا انتقام تھا اور وہ بھی ایسا اندھا انتقام جو کہ قاتل، مجرم اور اس کے خاندان تک محدود نہیں رہتا تھا۔ جبکہ قرآنِ کریم نے فرمایا: ’’اور ہم نے تورات میں ان کے لیے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی قصاص لیا جائے گا اب اگر کوئی شخص معاف کردے تو یہ اس (کے گناہوں) کا بھی کفارہ ہو جائے گا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

اگر آپ کا ایک شخص قتل ہو جائے تو اس کے مقابلے میں صرف وہی ایک شخص قصاص ہو کہ جو مجرم اور گنہگار ہے اور اگر مقتول کے ورثاء راضی ہو جائیں تو صرف دیت لینے یا حتی کہ صرف رضامندی پر اکتفا کیا جائے۔ ابھی تک بھی قصاص کا کوئی ایسا نعم البدل نہیں ملا ہے کہ جو مقتول کے پس ماندگان اور ورثاء کو بھی راضی کرسکے اور مجرم کو بھی کافی حد تک سزا مل جائے تاکہ خود اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی درسِ عبرت بنے کہ وہ اتنی آسانی سے انسانوں کا خون نہ بہائیں اور دوسروں کو قتل کرکے محض چند سال کی قید کے بعد دوبارہ آزاد ہو کر دندناتے پھریں اور لوگوں کو ہراساں کریں۔

’’اسلام ہر چیز کے بارے میں مسائل کو انتہائی دقّت کے ساتھ دیکھتا ہے۔ بےگناہوں کے خون کے سلسلے میں بھی اس نے ہر قسم کے افراط و تفریط سے دُور رہ کر اپنی بات کو بخوبی بیان کیا ہے۔ اسلام نہ تو یہودیوں کے تحریف شدہ دین کی طرح محض قصاص پر زور دیتا ہے اور نہ موجودہ عیسائیت کی طرح اپنے پیروکاروں کو صرف معاف کرنے یا دیت لینے کا درس دیتا ہے، اس لیے کہ دوسرا نظریہ مجرم کو مزید جری کرتا ہے اور پہلا نظریہ ظلم و تشدید اور انتقام کا باعث بنتا ہے۔‘‘

قرآنِ کریم میں قصاص کے قانون کی اہم ترین دلیل معاشرے کی زندگی کی حفاظت کو قرار دیا گیا ہے۔ خداوند متعال سورۂ بقرہ میں قصاص کے فلسفے کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اے اربابِ عقل و خرد! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے شاید کہ تم اس طرح متقی بن جاؤ۔‘‘   یعنی قصاص کا ہدف اور مقصد قتل اور جان لینا نہیں ہے بلکہ ہدف زندگی اور حیات ہے۔ مقصد الجھے ہوئے مسائل کو سُلجھانا اور ایک فرد یا معاشرے کو معمول کے حالات کی طرف لوٹانا ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر کسی دلیل کے اور معاشرے کے بنائے ہوئے قوانین اور اداروں سے ماوراء کسی کو قتل کرے تو اجتماعی و معاشرتی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور قصاص انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضمانت دیتا اور اسے محفوظ بناتا ہے۔

بعض اوقات کچھ لوگ قصاص کے قانون پر اعتراض کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ قصاص کی وجہ سے ایک دوسرا شخص بھی اپنی جان سے ہاتھ دُھو بیٹھتا ہے جبکہ انسانیت پر رَأفت و رحمت اور شفقت و مہربانی کا تقاضا یہ ہے کہ مجرم کو قصاص نہ کیا جائے۔

اس اعتراض کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ہر رَافت و رحمت اور شفقت و عطوفت صحیح، پسندیدہ اور دوسروں کے مفاد میں نہیں ہے اور اسے فضیلت شمار نہیں کیا جا سکتا چونکہ ایسے شقی القلب مجرم پر شفقت کرنا کہ جس کے لیے انسانوں کا خون بہانا، پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہے نیز اس بےرحم، نافرمان اور قانون شکن شخص پر رحم کرنا کہ جو لوگوں کی عزّت و ناموس اور جان و مال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، نیک، صالح اور قانون کی رعایت کرنے والے افراد پر ظلم کے مترادف ہے اور اگر ہم بغیر کسی قید و شرط کے رحم کریں تو اس سے معاشرتی نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا اور انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی اور تمام انسانی قدریں پامال ہو جائیں گی۔

شہید مطہریؒ اس آیت کے ذیل میں اس طرح رقمطراز ہیں:

’’ایسے شخص کے قتل کرنے اور مارنے کو قتل کرنا اور مارنا شمار نہ کریں بلکہ اسے زندگی اور حیات شمار کریں البتہ نہ اس شخص کی زندگی بالکہ پورے معاشرے کی زندگی؛ یعنی ایک مجرم اور قانون کو پامال کرنے والے شخص کا قصاص، معاشرے اور دوسرے افراد کی زندگیوں کو محفوظ بناتا ہے۔ آپ اگر قاتل کا راستہ نہ روکیں تو کل وہ ایک اور شخص کو قتل کرے گا اور پھر مزید ایسے افراد بھی پیدا ہو جائیں گے جو دسیوں افراد کو قتل کریں گے۔ پس اسے (قاتل کے قصاص کو) آپ معاشرے کے افراد کی تعداد میں کمی پر محمول نہ کریں بلکہ اسے معاشرے کی بقاء کی حفاظت شمار کریں۔ اسے مارنا نہ سمجھیں بلکہ زندگی سمجھیں؛ یعنی قصاص کا مطلب انسان کے ساتھ دشمنی کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کے ساتھ محبت اور دوستی کرنا ہے۔‘‘

بنابرایں اگر انسان اخلاقی کمال کے اس مرتبے تک پہنچ جائے کہ قصاص یعنی مسائل کا سُلجھانا اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو محفوظ بنانا کسی اور طریقے سے اور ایک انسان کی جان لیے بغیر ممکن ہو تو اسی کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ ہدف اور مقصد قاتل کا قتل اور قصاص نہیں ہے بلکہ مقصد حیات اور زندگی ہے اور خداوند متعال اپنے تمام بندوں اور مخلوقات پر رحیم ہے۔ اسی لیے آیتِ کریمہ انسانوں کے دلوں، دماغوں اور عقلوں سے خطاب کرتی ہے نہ کہ ان کے احساسات اور جذبات سے، اور فرماتی ہے: ’’اے اربابِ عقل و خرد! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘

صحیح و سالم اور محفوظ اجتماعی زندگی عمومی امن و امان، راحت و سکون اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور عمومی آسائش و سکون ایک اجتماعی زندگی کے اصولوں اور ارکان کی پاسداری کے صدقے میں نصیب ہوتی ہے۔ ایک استقرائی نظر میں اور انحصار پر تاکید کیے بغیر، ایک اجتماعی و معاشرتی زندگی کے ارکان مندرجہ ذیل ہیں: دین، جان، مال، انسان کا احترام اور اس کی شخصیت (ناموس یا نسل) اور انسانوں کی عقل و خرد۔ یہ اصول جو کہ غزالی کے زمانے سے اِس طرف مُسلم علماء اور فقہاء کے مدّنظر رہے ہیں، حقیقت میں ایک صحیح و سالم معاشرے کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتے ہیں اور اپنے زیریں اجزاء کے ساتھ معاشرے کے تمام معتبر اور اہم مصالح کو فراہم کر سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا مطالب کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے جرم و سزا سے متعلق قوانین کے اہداف میں سے ایک ہدف بلکہ شاید اہم ترین ہدف، دینی اور معاشرتی و اجتماعی نظام کی حفاظت ہے اور یہ اعلیٰ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ انسانوں کی تربیت اور اصلاح کے ذریعے یا سزاؤں سے ڈرا کر اور خوفزدہ کرکے، ایسے کاموں کے ارتکاب سے روکا جائے جو اجتماعی و معاشرتی نظام سے ارکان کو مخدوش اور متزلزل کر سکتے ہیں۔

 

تبصرے
Loading...