قرآن کی نگاہ میں خواتین کی عظمت اور آیۂ قوامون کی توضیح و تشریح(۲)

اس سے پہلےوالا  مقالہ جو  خواتین کی عظمت و احترام پر منحصر تھا، قارئین نے ملاحظہ کیا ہے، اسے مطالعہ کرنے کے بعد قارئین کے ذہن میں ضرور  یہ سوال آیا ہوگا کہ جب اسلام خواتین کی اتنی عظمت کا قائل ہےتو پھر مردوں کو عورتوں پر مسلط کیوں کیا گیا؟ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساء[1] کے معنا کیا ہیں؟ اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں تین چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔ ۱۔ اس آیت کے معنا۔  ۲۔ آیت کے  حکم کی وسعت۔  ۳۔ اس آیت کے حکم کی حکمت۔

1۔ اس آیت میں قَوَّامُونَ کی لفظ استعمال ہوئی جس کے معنا کچھ اس طرح ہیں: القوام من القيام و هو اداره المعاش» قوام قیام سے بنا ہے اور قیام کے معنا زندگی کے امور کی مدیریت کرنا ہے۔[2]

2۔ اس حکم کا دائرہ  تنھا گھروالوں  کے رابطے تک محدود ہے دوسری عبارت میں یہ کہا جائے کہ مذکورہ آیت،  مرد کو مطلق طور پر مسلط نہیں کر رہا ہے بلکہ تنہا ان امور میں مسلط کر رہا ہے جو گھر  والے کی تربیت اور پرورش میں درکار ہے جیسے نان و نفقہ، اچھی زندگی وغیرہ یعنی وہ مسائل  جو اقتصاد سے مربوط ہیں۔

۳۔ اس آیت میں موجود حکم کی حکمت یہ ہے کہ مرد طبیعی طور سے گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اقتصاد میں عورت کے بنسبت زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔اور صلاحیتوں کی بناء پر کسی کو کسی پر مسلط کرنا عقلی طور سے بھی برا نہیں ہے۔
دوسری طرف خواتین ہر لحاظ سے امن و امان میں رہ کر اپنے وظائف کو جیسے حمل، بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق کو ادا کریں، بس گھر کے باہر رہ کر گھر کی بیرونی ضرورتوں کو پورا کرنا مردوں کی ذمہ داری ہے اور گھر میں رہ کر گھر کی اندرونی ذمہ داریوں کو ادا کرنا عورتوں کی ذمہ داری ہے اور یہ کاملا فطرت اور خلقت کے مطابق ہے۔
آيت کريمہ سے بالکل صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کا مقصد مرد کو حاکم مطلق بنا دينا نہيں ہے  اور عورت سے اس کي آزادي حيات کا سلب کرلينا نہيں ہے بلکہ اس نے مردکو بعض خصوصيات کي بناء پر گھر کا نگراں اور ذمہ دار بنا ديا ہے اور اسے عورت کی جان و مال اور آبرو کا محافظ قرارديدياہے اس کے علاوہ اس مختصر حاکميت يا ذمہ داري کو بھي مفت نہيں قرار ديا ہے بلکہ اس کے مقابلہ ميں اسے عورت کے تمام اخراجات ومصارف کا ذمہ دار بنا ديا ہے ۔ اور کھلي ہوئي بات ہے کہ جب دفتر کا افسر يا کار خانہ کا مالک صرف تنخواہ دينے کي بنا پر حاکميت کے بيشمار اختيارات حاصل کرليتا ہے اور اسے کوئي عالم انسانيت کی توہين نہيں قرار ديتا ہے اور دنيا کا ہر ملک اسي پاليسي پر عمل کرليتا ہے تو مرد،  زندگي کي تمام ذمہ دارياں قبول کرنے کے بعد اگر عورت پر پابندي عائد کردے کہ اس کي اجازت کے بغير گھر سے باہر نہ جائے اور  اس کيلئے ايسے وسائل سکون فراہم کردے کہ اسے باہر نہ جا نا پڑے اور دوسرے کي طرف ہوس آميز نگاہ سے نہ ديکھنا پڑے تو کونسي حيرت انگيز بات ہے يہ تو ايک طرح کا بالکل صاف اور سادہ انساني معاملہ ہے جو ازدواج کي شکل ميں منظر عام پر آتا ہے کہ مرد کا  کمايا ہوا مال عورت کا ہوجاتا ہے اور عورت کي زندگي کاسرمايہ مرد کا ہوجاتا ہے ، مرد ،عورت کی ضروريات پوراکرنيکے لئے گھنٹوں محنت کرتا ہے اور باہر سے سرمايہ فراہم کرتا ہے اورعورت مرد کي تسکين کے ليے کوئي زحمت نہيں کرتي ہے بلکہ اس کاسرمايہٴ حيات اس کے وجود کے ساتھ ہے. انصاف کيا جائے کہ اس قدرفطري سرمايہ سے اس قدرمحنتي سرمايہ کاتبادلہ کياعورت کے حق ميں ظلم اورناانصافي کہا جاسکتاہے جب کہ مردکي تسکين ميں بھي عورت برابرکي حصہ دارہوتي ہے اوريہ جذبہ يک طرفہ نہيں ہوتاہے اورعورت کے مال صرف کرنے ميں مردکوکوئي حصہ نہيں ملتا ہے مردپريہ ذمہ داري اس کے مردانہ خصوصيات اوراس کي فطري صلاحيت کي بناپررکھي گئي ہے ورنہ يہ تبادلہ مردوں کے حق ميں ظلم ہوتاجاتااورانہيں يہ شکايت ہوتي کہ عورت نے ہميں کياسکون دياہے اوراس کے مقابلہ ميں ہم پرذمہ داريوں کاکس قدربوجھ لاد دياگياہے يہ خوداس بات کي واضح دليل ہے کہ يہ جنس اورمال کاسودانہيں ہے بلکہ صلاحيتوں کي بنياد پرتقسيم کارہے .عورت جس قدرخدمت، مردکے حق ميں کرسکتي ہے اس کاذمہ دارعورت کو بنادياگياہے اورمرد جس قدرخدمت ،عورت کی کرسکتاہے اس کااسے ذمہ داربنادياگياہے اوريہ کوئي حاکميت ياجلاديت نہيں ہے کہ اسلام پرناانصافي کاالزام لگا ديا جائے اوراسے حقوق نسواں کاضائع کرنے وا لاقراردے دياجائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] نساء/۳۴
[2] تفسير الميزان، ج۴، ص۲۱۵.

تبصرے
Loading...