قرآن کی نگاہ میں خواتین کی عظمت اور آیۂ قوامون کی توضیح و تشریح(۱)

اسلام نےعورتوں کو ہر حیثیت سے عزت و عظمت عطا کی گئی۔ انہیں وہ تمام حقوق دیے گئے جن کی وہ مستحق ہیں ۔ اسلام نے عورتوں کو جو مقام و مرتبہ، عزت و وقار عطا کیا ہے اس کا تصور کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ رسول اسلام (ص) اور ائمہ معصومین(ع) نے بہت سی جگہوں پر عورتوں کی تعریف و تمجید بھی کی ہے۔ چنانچہ امام صادق (ع) نے نیک اور صالحہ خاتون کو خیر و برکت کے عنوان سے یاد فرماتے ہوئے اسے دنیا کی سب سے بہترین نعمت سے تعبیر فرمایا ہے۔[1]

لیکن دین اسلام سے عناد و دشمنی رکھنے والے افراد ، قرآن کریم اور اسلام  کی حکیمانہ تعلیمات پر  ضرب کاری لگانے کے لئے اس پر طرح طرح کے شبہات ایجاد کرتے  ہیں تاکہ  اسلام کی تعلیمات سے مانوس متدین افراد کو اسلام سے دور کیا جاسکے اور قریب آنے والے علم دوست افراد کو روکا جاسکے۔انہیں  شبہات میں سے ایک شبہہ قرآن کریم کی یہ آیت : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساء[2]یعنی مرد ،عورتوں پر حاوی اور مسلط ہیں۔ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا مردوں کو عورتوں پر مسلط کردینا ایک طرح سے ان کی ذلت نہیں ہے؟ کیا ضرورت ہے کہ خواتین اپنے ہر امور میں شوہر کی اطاعت کریں؟ ۔ اس سے پہلے کہ اس کا جواب آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کروں ، مقدمۃً خواتیں کی عظمت اور احترام قرآن و اسلام کے اعتبار سے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔

قرآن کریم کی رو  سے مرد و عورت کی عظمت اور فضیلت کے معیار میں کوئی فرق نہیں ہے  دونوں کی فضیلت و عظمت کا معیار و ملاک ایک ہے اور وہ ہے تقویٰ «إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُم[3] تم میں سب سے باکمال شخص (چاہے مرد یا عورت)و ہی ہے جو تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو ۔اسلام نے جنسیت کو کبھی معیار فضیلت قرار نہیں دیا ہے۔

اسی لئے اگر ہم اسلام کی حکیمانہ تعلیمات  کی طرف نگاہ کریں تو معلوم ہو گا کہ تعلیم کے میدان میں دونوں  یکساں ہیں، احادیث مبارکہ میں دونوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے[4]۔ اسی طرح دعوت دین کے لیے بھی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو قرآن نے سرگرم رول عطا کرنے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے : ”بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا گیا ہے“۔[5]

اس آیت کریمہ میں پروردگار عالم  نے مردوں اور عورتوں کو برابری کا درجہ دیا اور فرمایا دونوں کی مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ان صفات پر مشروط ہے۔ عورتیں ان اصولوں کو اپنا کر اخلاص و روحانی ترقی کے بلند مرتبے تک پہنچ سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ، بغیر کسی امتیاز  کے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے عام ہے اور آخرت میں کامیابی و سرخروئی حاصل کرنے کا جو معیار مردوں کے لیے بنایا گیا ہے وہی عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اس لیے دونوں کو یکساں فکر آخرت کرنی چاہیے۔

پھر اگر ہم عبادت کے حوالے سے دیکھیں تو اسلام کی عبادات میں بھی دونوں کے حصے برابر ہیں، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکواۃ ساری چیزوں میں آپ یکسانیت پائیں گے۔ عورت اور مرد میں کوئی تفریق اگر ہوتی تو بی بی ہاجرہ کی اس سعی کو اللہ تعالیٰ نشانی کے طور پر نہ رکھتا جو کہ قیامت تک کے لیے لازمی رکن ہے، حج کے لیے اس کو ایک لازمی رکن کا درجہ نہ ملتا۔ یہ بھی ایک خاتون ہی تھیں جن کا ایک عمل رب العالمین کو اتنا پسند آگیا کہ آج بھی لوگ اس کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ان تمام آیات و روایت سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ؛

۱۔خداوند عالم نے کبھی بھی فضیلت کا معیار جنسیت کو قرار نہیں دیا ،  ہمشہ ملاک ، عظمت و احترام تقوی کو قرار دیا ہے ، لہٰذا اس لحاظ سے مرد و عورت خداوند عالم کی نگاہ میں برابر ہیں۔

۲۔  اسی طرح تعلیم و تعلم میں اور اجر و سزا میں بھی مرد و عورت برابر کے شریک ہیں۔ خداوند متعال نے اس میں بھی کسی طرح کا  فرق نہیں رکھا اور دونوں کو برابر کا درجہ دیا ۔

3۔ خداوند عالم عبادات اور احکام میں بھی دونوں کو برابر درجہ دیا ہے بلکہ بعض جگہ پر بعض وجوہات کی بناء پر تو خواتین سے بعض احکام اٹھالئے ہیں جبکہ مردوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ان تمام نتائج سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے جو درجہ عورتوں کو دیا ہے وہ کسی مذہب نے نہیں دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] اکثر الخیر فی النساء». من‏ لایحضره ‏الفقیه، ج۳، ص۳۸۵.
[2] نساء/۳۴
[3] حجرات/۱۳
[4] بحار الانوار، ج ۱، ص۱77۔
[5] الاحزاب/35

تبصرے
Loading...