قرآن کی نظر میں خاندان کا ماحول

تحریر:مھدی سید مرادی                                                                                        مترجم: ملک جرار عباس یزدانی

قرآن  انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل اور بہترین ضابطہ حیات ہے، ہم نے قرآن میں خاندان کے موضوع پر بحث کی ہے اب اس تحریر میں ”خاندان کا  ماحول قرآن کی نگاہ سے”  کے موضوع پر بحث کریں گے۔

۱۔ خاندان کا آرام و سکون

آرام اور سکون ایک ایسی نعمت ہے کہ  جو خداوند متعال مختلف راستوں سے انسان کو عطا کرتا ہے،خاندان کی تشکیل اور شادی کرنا ان سے میں ایک  ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ : «هُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ وَ جَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِیَسْکُنَ إِلَیْها/  وہی خدا ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اسکا جوڑا بنایا تاکہ  اس سے سکون حاصل ہو ،(اعراف/ 189).

یہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ خدا نے انسان پر احسان کیا ہے کہ  تمام انسانوں کی نسل ایک ہی انسان(حضرت آدمؑ) سے چلائی ہے اور سب کا شجرہ نسب ان تک پہنچتا ہے، اور خداوند متعال نے ہر انسان  کے لیے انسانوں میں سے ہی اس کا جوڑا مقرر کیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے مونس اور ہمدم و یاور رہیں،اور ان دو(شوہر اور زوجہ ) سے ایک خاندان کی تشکیل ہو اور انسان کی نسل آگے بڑھے اور نسل انسانی کو بقا اور دوام حاصل  رہے۔

ایک دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے کہ: «وَ مِنْ آیاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْواجاً لِتَسْکُنُوا إِلَیْها/   اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو» (روم/ 21) اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بیویاں ان خصوصیات کے ساتھ جو کہ بیان کی گئی ہیں انسان کے لیے سکون اور اطمینان کا سبب بنتی ہیں، اور جس بیوی سے انسان کو حقیقی سکون میسر ہو وہ واقعی اللہ تعالی کی عظیم اور بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

۲۔ خاندان میں  مودت اور معاشرت

 قرآن کریم میں گھر اور خاندان کے ماحول میں بچوں سے مودت ،اچھی معاشرت اور  اولاد کے ساتھ قرب اور عاطفی رابطے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے،  قرآن میں جہاں والدین کے گھر میں داخل ہونے کے بارے میں انکے مقام اور مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خصوصی آداب کی بات کی گئی ہے وہیں یہ بات بھی ذکر ہوئی ہے کہ؛  «یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنْکُمُ‏ … وَ الَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ‏ … وَ لا عَلَیْهِمْ جُناحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلى‏ بَعْضٍ‏ …./  ایمان والو تمہارے غلام،کنیز اور وہ بچے جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں ان سب کو چاہئے کہ  تمہارے پاس داخل ہونے کے لئے تین اوقات میں اجازت لیں نماز صبح سے پہلے، اور دوپہر کے وقت اورجب تم کپڑے اتار کر آرام کرتے ہو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین اوقات پردے کے ہیں اس کے بعد تمہارے لئے یا ان کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک دوسرے  کے پاس چکر لگاتے رہیں ۔» (نور/ 58)

خداوند متعال نے اس آیت میں ایک ایسے حکم کو بیان کیا ہے جو کہ معاشرے کی عمومی عفت اور پاکدامنی سے مربوط ہے، یہ مسئلہ بالغ اور نابالغ افراد کا والدین کے خصوصی کمروں(بیڈرومز) میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ انسان اگر اجازت کے بغیر والدین کے کمرے میں جائے تو وہ ایسی حالت میں ہوں کہ جو بچوں کے دیکھنے کےلیے مناسب نہ ہو، اور آیت کے آخر میں جو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ”  ان تین اوقات کے علاوہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ بغیر اجازت کے داخل ہو اور ایک دوسرے کی خدمت کریں اور  ایک دوسرے کے ساتھ  مل جلکر بات چیت کریں اور ایک دوسرے  کےپاس کھلے دل سے آتے جاتے رہیں اور ایک دوسرے کی خدمت کریں،یہ آیت  معاشرت اور اجتماعی تعاون اور خاندان کے افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو بیان کر رہی ہے۔

۳۔ خاندان کے حقوق

 خداوند متعال نے قرآن کریم میں انسان کےانفرادی اور اجتماعی حقوق کو  بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے، اسی طرح خداوند متعال نے خاندان کے حقوق کو بھی بہت ساری آیت میں بیان اور انکا ذکر کیا ہے، جیسے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر۲۲۹ میں شوہر اور زوجہ کے طلاق رجعی کی صورت میں حقوق کو  بیان کیا ہے: «الطَّلاقُ مَرَّتانِ … تِلْکَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها وَ مَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ/  طلاق(رجعی) دو مرتبہ دی جائے گی،اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسن سلوک کے ساتھ آزاد کر دیا جائے گا اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ  جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے، تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے  اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے،لیکن یہ حدود الہیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الہی سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا۔». (بقره/229)

عدت اور رجوع کا قانون خاندان کی اصلاح اور بھلائی کے ساتھ ساتھ میاں بیوی میں افتراق اور جدائی سے بچنے کے لیے تھا،لیکن  ابتدائے اسلام کے وقت کچھ نو مسلم افراد نے جاہلیت کے زمانے کے  مطابق اس قانون سے سوء استفادہ کرنا شروع کردیا تھا،لہذا مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی تاکہ اس برےاورقبیح عمل سے روکا جائے،لہذا اس آیت میں رجوع کے احکام کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا،خداوند متعال نے اس آیت کے آخر میں تمام احکام کی طرف جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیںاشارہ کیا ہے اور فرماتا ہے کہ:حدود الہی کی رعایت نہ کرنا یہ خاندان کے حقوق سے مربوط ہے اور اسی طرح مباشرت کے حدود کا خیال نہ رکھنابھی ایک ظلم ہے اور حدود الہی کو پامال کرنے والے کا شمار ظالموں میں کیا جائے گا۔

۴۔ خاندان میں مشاورت

اسلام نے مشاورت اور  مشورے کے موضوع کو  ایک خاص اہمیت سے دیکھا ہے،پیامبر اکرم(ص) باجود اسکے کہ وحی آسمانی سے متصل تھے اور انکو کسی انسان سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی لیکن صرف اسوجہ سے کہ مسلمان مشورے کی اہمیت اور افادیت سے آشنا ہو جائیں پیغمبر (ص) عمومی کاموں میں جو قوانین الہی کے اجراء سے متعلق تھے ان میں باقاعدہ مسلمانوں سے مشورہ کرتے تھے اور جو لوگ صاحب نظر ہوتے یا اچھا مشورہ دیتے تھے پیغمبر(ص) ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے اور ان پر عمل کیا کرتے تھے۔

مشورے کا ایک اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اپنے اہم امور اور کاموں کو ایک دوسرے کی مشاورت سے انجام دیتے ہیں وہ لغزش اور خطا سے بچ جاتے ہیں ،قرآن نے بھی مشورہ اور مشاورت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کو پسندیدہ قرار دیا ہے، اور پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب میں ارشاد فرمایا کہ : «وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ/ اور اپنے کاموں میں ان سے (اصحاب اور مسلمانوں) مشورہ کرو» (آل عمران/۱۵۹) لہذا بچے کے دودھ چھڑانے کے معاملے میں بھی ماں باپ کو آپس میں مشورے کا حکم دیا گیا ہے۔

«وَ الْوالِداتُ یُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کامِلَیْنِ‏ … فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما وَ تَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَیْهِما …./  اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اگر دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔» (بقره/۲۳۳) اس جگہ بچے کا دودھ چھڑانے کے مسئلے کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کا اختیار ماں اور باپ دونوں کو دیا گیا ہے۔ یعنی حقیقت میں ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کی صحت اور زندگی کی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فکر کریں اور دونوں ملکر کسی نتیجے پر پہنچیں، جسے قرآن کی اصطلاح میں تراضی اور تشاور( رضا اور مشورت) سے تعبیر کیا گیا ہے،لہذا ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ماں کا دودھ بچے سے چھڑانے کے لیے ایک شیڈول بنائیں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے نزاع اور جھگڑے اور ایسے کاموں سے  جن سے بچے کی زندگی یا اسکی صحت پر برے اثرات مرتب ہوں اجتناب کریں۔

۵۔ خاندان سے لگاؤ اور تعلق

 انسان کو اپنےخاندان کے افرداد سے خصوصی لگاؤ ہوتا ہے، لیکن یہ لگاؤ اتنا شدید نہیں ہونا چاہیے کہ جو خداوند متعال کی ناراضگی اور مذمت کا سبب بنے، کیونکہ خداوند متعال نے خاندان سے اتنا لگاؤ جس سے خدا  ،پیغمبر(ص)، اور جہاد  کی محبت پس پشت چلی جائے مذمت کی ہے چنانچہ ارشاد خداوند ہو رہا ہے«قُلْ إِنْ کانَ آباؤُکُمْ وَ أَبْناؤُکُمْ‏ وَ إِخْوانُکُمْ وَ أَزْواجُکُمْ وَ عَشیرَتُکُمْ وَ … أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهادٍ فی‏ سَبیلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى یَأْتِیَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَ اللَّهُ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفاسِقینَ/

ترجمہ: پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ دادا،اولاد،بھائی،ازدواج،عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارے کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ،اسکے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔» (توبه/24)

یہ آیت حقیقی ایمان کی نشانیاں بیان کر رہی ہے اور ساتھ ہی اصل ایمان کا شرک اور نفاق سے آلودہ ایمان کے ساتھ تفاوت اور فرق بھی بیان کر رہی ہیں،اس آیت میں حقیقی مؤمنین اور ضعیف الایمان افراد کی حدود کو بھی مشخص کر دیا گیا ہے،لہذا اس آیت میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بیان کرد یا گیا ہے کہ اگر مادی سرمایہ کی وہ آٹھ چیزیں جنکو اوپر بیان کیا گیا ہے انسان کی نظر میں خدا،رسول ،جہاد اور اسکی اطاعت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہوں اور انسان ان چیزوں سے اتنی محبت رکھتا ہو کہ انکو خدا کی راہ میں فدا اور قربان کرنے سے پس و پیش کر رہا ہو تو  معلوم ہوجائے گا کہ اس شخص میں حقیقی ایمان ابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔

۶۔ خاندان میں اختلاف اور نزاع

انسانی معاشروں میں کم و بیش تمام جگہوں پر اختلاف نظر آتا ہے، گھر اور خاندان بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں،اور بعض وجوہات کی وجہ سے خاندان کے افراد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن قرآن ان مسائل سے غافل نہیں ہے چنانچہ قرآن  میں گھریلو اختلاف کی صورت میں رشتے داروں  کے کچھ وظائف بیان کئے گئے ہیں تاکہ وہ ان وظائف کی روشنی میں ان اختلافات کو ختم کروائیں خداوند متعال سورہ مبارکہ نساء کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں  اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے،«.. وَ اللَّاتِی تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ‏ … وَ إِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَیْنِهِما فَابْعَثُوا حَکَماً مِنْ أَهْلِهِ وَ حَکَماً مِنْ أَهْلِها إِنْ یُرِیدا إِصْلاحاً …. /   اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو،۔۔۔۔۔ اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک حکم (قاضی اور جج)مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے بھیجو،پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر دے گا بیشک اللہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔

اس آیت میں مرد اور عورت(زوجہ اور شوہر) کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،یعنی اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور جدائی کی علامات ظاہر ہوں تو ان مسائل کے ازالے اور اختلاف کے حل کے لیے اور زوجین میں صلح  کی زمین ہموار کرنے کے لیے ایک قاضی مرد کے رشتے داروں میں سے اور  ایک قاضی  عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کیا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان ہونے والے اختلاف اور جھگڑے کو مل بیٹھ کر آپس کی رضامندی سے ختم کریں۔

خاندان میں اختلاف کے عوامل اور اسباب

قرآن نے خاندان میں اختلاف پیدا کرنے والے چند عوامل کا ذکر کیا ہے، سورہ مبارکہ نساء کی آیت نمبر۱۲۸ میں تین عوامل کا ذکر کیا گیا ہے،جیسے شوہر کا بیوی سے دوری اختیار کرنا،میاں بیوی کا بخل اور شوہر کی نافرمانی، «وَ إِنِ امْرَأَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً أَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْهِما أَنْ یُصْلِحا بَیْنَهُما صُلْحاً وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ وَ أُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیرا/ اور اگر کوئی عورت شوہر سے حقوق ادا نہ کرنے یا اسکی کنارہ کشی سے طلاق کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح کرلیں کہ صلح میں بہتری ہے اور بخل تو ہر نفس کے ساتھ حاضر رہتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ کرو گے اور زیادتی سے بچو گے تو خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے۔

 عورت اور مرد کے نشوز سے مراد طغیان اور سرکشی ہے، قرآن  اس آیت میں مرد کی عورت سے روگردانی کی طرف اشارہ کر رہا ہے،مرد کا نشوز یعنی زوجہ سے اعراض کرنا اور  بخل اور کنجوسی کرنا بہت سے اختلافات کا موجب بنتا ہے،چنانچہ ارشاد ہے جب بھی مرد اور عورت اس حقیقت کی جانب توجہ کریں گے کہ بہت سارے مسائل کا سرچشمہ بخل ہے تو اگر وہ اپنی اصلاح کے لیے کوشش کریں اور درگزر کا مظاہرہ کریں تو نہ فقط یہ کہ بہت سارے خاندانی اختلافات ختم ہوجائیں گے بلکہ بہت ساری دوسری اجتماعی مشکلات اور جھگڑے بھی اختتام پذیر ہونگے۔

نشوز یعنی اعراض اور نافرمانی صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قرآن کی نگاہ میں عورت کی نافرمانی اور سرکشی بھی خاندان اور گھر میں اختلاف کا سبب بنتی ہے لہذا قرآن میں ارشاد خداوندی ہے کہ: «… وَ اللَّاتِی تَخافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضاجِعِ وَ اضْرِبُوهُنَ‏ …./ ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور مارو۔۔۔(نساء/ 34)

قرآن نے سحر اور جادو سے استفادے کو  بھی گھر کے اندر اختلاف اور جدائی کے عوامل میں شمار کیا ہے چنانچہ سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: «… وَ لکِنَّ الشَّیاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ‏ … فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْهُما ما یُفَرِّقُونَ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهِ‏ ….  اور کافر یہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن وہ لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کرادیں۔۔۔۔۔

 قرآن نے گھر اور خاندان کے ماحول کے متعلق مسئلے کو سورہ تغابن کی آیت نمبر ۱۴ میں اور ”خاندان میں دشمنی” ، اور ”اپنے اور خاندان کے نقصان اور خسارے ” کے بارے میں سورہ زمر کی آیت نمبر۱۵ میں اور سورہ شوری کی آیت نمبر ۱۵ میں  ان مسائل کا ذکر کیا ہے۔

تبصرے
Loading...