قرآن کی تلاوت کا حکم قرآن اور روایات کی روشنی میں

خلاصہ: قرآن کریم کی تلاوت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، قرائت قرآن کا حکم خود قرآن میں اور روایات میں ہوا ہے۔

قرآن کی تلاوت کا حکم قرآن اور روایات کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تبارک و تعالی نے قرآْن کریم میں سورہ مزمل کی آیت ۲۰ میں جو اس سورہ کی آخری آیت ہے، دو مرتبہ قرائت قرآن کا حکم دیا ہے، ارشاد الہی ہے: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، “تو اب جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو”، اسی آیت میں پھر کچھ جملوں کے بعد فرمایا: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ، “پس اتنا قرآن پڑھو جتنا میسر ہو”۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان دو جملوں میں آسانی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس آیت میں قرائت قرآن کے بارے میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے نقل کیا گیا ہے کہ آپؑ نے اپنے جد سے نقل کیا کہ فرمایا: “مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ‏ لَكُمْ‏ فِيهِ‏ خُشُوعُ‏ الْقَلْبِ‏ وَ صَفَاءُ السِّر”، “جتنی تمہارے لیے قرآن میں سے (قرائت) میسر ہو جس میں دل کا خشوع اور باطن کی طہارت ہو”۔ (بحارالانوار، ج۸۴، ص۱۳۵)۔ قرآن کی تلاوت کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: يا سَلمانُ، المُؤمِنُ إذا قَرَأَ القُرآنَ فَتَحَ اللّه عَلَيهِ أبوابَ الرَّحمَةِ، وخَلَقَ اللّه بِكُلِّ حَرفٍ يَخرُجُ مِن فَمِهِ مَلَكا يُسَبِّحُ لَهُ إلى يَومِ القِيامَةِ؛ فَإِنَّهُ لَيسَ شَيءٌ ـ بَعدَ تَعَلُّمِ العِلمِ ـ أحَبَّ إلَى اللّهِ مِن قِراءَةِ القُرآنِ، “اے سلمان! جب مومن قرآن کی قرائت کرتا ہے تو اللہ اس پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ہر حرف جو اس کے منہ سے نکلتا ہے اس کے بدلہ میں اللہ ایک فرشتہ خلق کرتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کے لئے تسبیح کرے گا، کیونکہ علم حاصل کرنے کے بعد، قرائت قرآن سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے لئے محبوب نہیں ہے”۔ (بحارالانوار، ج۸۹، ص۱۸)۔
حوالہ:
(بحارالانوار، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ناشر: دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، 1403ق‏)

تبصرے
Loading...