قرآن کو نظرانداز کرنے کی قیامت کے دن شکایت

خلاصہ: قرآن جو اللہ تعالی کا کلام ہے، انسان اسے اس طرح اہمیت نہیں دیتا جس اہمیت سے اس کے نزول کا مقصد پورا ہو، یعنی عام طور پر لوگ قرآن کو نظرانداز کرتے ہیں، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ انہوں نے قرآن کو نظرانداز کردیا۔

قرآن کو نظرانداز کرنے کی قیامت کے دن شکایت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنی امت کے بارے میں شکایت کریں گے کہ انہوں نے قرآن کی قدر نہ سجھی۔ سورہ فرقان کی آیت ۳۰ میں ارشاد الٰہی ہے: “وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً “، “اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا”۔
قرآن کو مہجور اور نظرانداز کرنے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ قرآن کی اچھی اشاعت (چھاپ) کروائی جائے اور بہترین جگہ پر رکھا جائے، حتی یہ بھی نہیں کہ خوبصورت آواز سے پڑھا جائے یا رسومات کی ادائیگی کے لئے محفلوں کی زینت بنایا جائے، بلکہ قرآن عمل اور ہدایت کی کتاب ہے۔ قرآن کی تلاوت ایسی ہونی چاہیے جو عمل اور ہدایت کا مقدمہ بنے، کیونکہ قرآن انسان کی نجات کا باعث ہے۔
قرآن ایسی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے تمام رتبوں میں ہدایت کی تمام گنجائش کو اس میں رکھا ہے، لیکن اس شرط سے کہ ہم اپنے انسانی بنیادی اصول سے بھٹک نہ گئے ہوں۔ اسی لیے قرآن “ھدیً للنّاس” بھی ہے اور “ھدیً للمتّقین” بھی، یعنی لوگوں کے لئے بھی ہدایت ہے اور صاحبانِ تقوا کے لئے بھی۔
آیت اللہ بہجت (علیہ الرحمہ) فرماتے تھے: نہیں معلوم ہم نے کیا کیا ہے کہ حلوا (قرآن کی مٹھاس) ہمارے ذائقہ میں کڑوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مریض ہیں۔ کیا افسوس کی بات نہیں ہے کہ ہم یہ میٹھی نعمت کھو بیٹھیں اور بہت ساری چیزوں کو اس پر ترجیح دیدیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی، ص24، 25۔

 

تبصرے
Loading...