قرآن کریم کے مختلف درجات

خلاصہ: قرآن کریم کا ایک بلند درجہ ہے اور وہ درجہ بھی ہے جو لوگوں کے سامنے ہے، ان دونوں درجوں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں ارشاد الہی ہورہا ہے: ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ، ” یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے” اور سورہ اسراء کی آیت ۹ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ، “یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے”۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مقام پر قرآن کو “وہ” کہا اور دوسرے مقام پر “یہ” کہا تو قرآن دور ہے یا قریب؟ جواب یہ ہے کہ قرآن کے مختلف درجات اور مراتب ہیں، جب قرآن کے الفاظ اور ظاہر کو دیکھا جاتا ہے جو قرائت، تلاوت، لکھنے، سننے، سنانے، قابل فہم اور قابل استدلال ہے تو ایسے مقام کے لئے مناسب الفاظ یہ ہیں: هذَا الْقُرْآنَ” یعنی “یہ قرآن”، اور دوسری طرف سے دیکھا جائے تو قرآن کریم عام کتابوں جیسی کتاب نہیں ہے کہ جس کی ابتدا اور انتہاء لوگوں کے پاس ہو، بلکہ قرآن کریم، اللہ کی ایسی کتاب ہے جس کے درجات ہیں، اس کا اعلی رتبہ “ام الکتاب” ہے جو سورہ زخرف کی آیت ۴ میں بیان ہوا ہے: “وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ”، “بےشک وہ (قرآن) اصل کتاب (لوحِ محفوظ) میں جو ہمارے پاس ہے بلند مرتبہ (اور) حکمت والا ہے”۔ نیز اللہ تعالی کے اذن سے قرآن کریم کا بلند رتبہ “کرام بررۃ ملائکہ” کے پاس ہے جس کا تذکرہ سورہ عبس میں ہوا ہے، اور ادھر سے نازل کردہ درجہ لوگوں کے پاس ہے جو عربی مبین کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ لہذا “وہ قرآن”اس بلندرتبہ کی طرف اشارہ ہے اور “یہ قرآن” اس رتبہ کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کے پاس ہے۔

تبصرے
Loading...