قرآن کریم کی تفسیر کے اصول و قوانین کے سلسلے میں امام جعفر صادقؑ کی فرمائشات

مقدمہ

قرآن کریم کی تفسیر،مسلمانوں کی ابتدائی علمی فعالیتوں میں سے ایک ہے کہ جو دینی اعتقادات کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اورغورخوض کرنے کے سلسلےمیں تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر اور اس کی وضاحت کرنے والے ہیں،اس سلسلے میں قرآن کریم کا ارشاد گرامی ہے :” وأَنزلنا الیک الذِّکرَ لِتُبَیِّن لِلنّاس ما نُزِّل إلیهم”؛ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہےاسے بیان اور اس کی وضاحت فرمائیں۔ قرآن کریم کی تفسیر و وضاحت کا سلسلہ رسول اکرم(ص) کے بعد بھی جاری رہا اور مختلف صورتوں میں پھیلتا چلا گیا ، لیکن ان تمام تفاسیر کے درمیان جو روایات حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق پائی جاتی ہیں ان کا ایک خاص مقام ہے، اس سلسلے میں آپ سے مروی روایات بہت زیادہ ہیں بلکہ قرآن کریم کے تمام ہی تیس سوروں کی تفسیر کے متعلق روایات نظر آتی ہیں۔ لیکن جو کچھ اس مقالے میں منظور نظر ہے وہ ان نکات و مطالب کی طرف توجہ دلانا ہے جو قرآن کریم کی تفسیر کے اصول و قوانین کے سلسلے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی فرمائشات پر مشتمل ہے ۔

1- عقلی اصول و قوانین کی طرف توجہ

کلام الہی کے معانی کو خوب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے سلسلے میں عقلی اصول و قوانین کی طرف خصوصی توجہ کی جائے حضرت امام جعفر صادق(ع) نے متعدد آیات کی اسی طرح کے اصول کی بنیاد پر تفسیر فرمائی ہے مثلا : وضو کے سلسلے میں ایسے شخص کے لیے کہ جس کے ہاتھ پر زخم ہے اور پٹی باندھ رکھی ہے فرمایا:اسی پٹی پر جبیرہ کے طور پر مسح کرو، اور پھر فرمایا:یہ مسئلہ اور اس طرح کے مسائل قرآن کریم سے اخذ اور سمجھے جاسکتے ہیں۔ کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے : “ما جَعَل علَیکم فی الدّین مِن حَرَج”؛ خدا کے دین میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے کہ جس کے انجام دینے میں سختی و پریشانی پائی جائے۔

دوسری روایت میں داؤد رقی سے نقل ہوا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے

” و کان عرشه علی الماء”  اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا، کہ لوگ کہتے ہیں کہ عرش الہی پانی پر تھا اور خداوندعالم اس کے اوپر تھا؟ حضرت نے فرمایا: یہ معنی غلظ اور خداوندعالم کی طرف جھوٹ کی نسبت ہے ، جو بھی اس طرح کا عقیدہ رکھتاہے گویا اس کے گمان میں خدا وندعالم ایک محمول ہے اس نے خداوند متعال کی مخلوق کی طرح توصیف کی، کہ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو خداوند کریم کا حامل ہےوہ اس سے قوی تر ہے!۔

2- قرآن کریم کی آیات کے بطن اور باطنی معانی

اسلامی عقائد کے مطابق، قرآن کریم موجودہ صورت ہی میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت رسول اکرم(ص) پر نازل ہوا ہے کہ جس کی حقیقت صرف خداوندعالم کے پاس ہے۔ حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام سے اس سلسلے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ قرآن کریم، معانی کے اعتبار سے متعدد مرتبے رکھتا ہے اور اس کے بہت سے بطن ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق نےقرآن کریم کی آیات کی تفسیرمیں اس موضوع کی طرف بھی توجہ دلائی ہے مثلا اس آیت «و علاماتٍ و بالنّجمِ هُم یَهتَدون» کی تفسیر میں آپ کا ارشاد اس سلسلے میں ایک نمونہ ہے کہ آپ نے فرمایا: اس آیت میں نجم سے مراد رسول خدا ہیں اور علامات سے مراد آئمہ طاہرین ہیں۔ اگر چہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ ستارے جنگل و بیابان اور دریاؤں میں لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔

3- قرآن کریم کے بارےمیں ضروری معلومات اور علم و دانش کا حامل ہونا

بہت سے انسانوں کا احتمال و گمان کی بنیاد پر گفتگو کرنا اگر چہ ایک شیوہ بن چکا ہے لیکن عدم اعتماد اور بھروسہ مند نہ ہونے کی بھی مہم ترین وجہ یہی ہے کہ لوگوں کے کلام پر یقین نہیں کیا جاتا، اسی بات کی طرف قرآن کریم میں متعدد مقامات پر خداوندعالم نےخصوصی توجہ دلائی ہے اور ظن و گمان پر تکیہ کرنے سے منع فرمایاہے ۔ حضرت امام جعفر صادق اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اہل بصرہ نے ایک خط میں حضرت امام حسین سے ” صمد ” کے متعلق سوال کیا۔ حضرت امام حسین نے ان کے جواب میں تحریر فرمایا : جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس کے بارے میں زیادہ  بحث نہ کرو اور بغیر علم کے گفتگو نہ کرو، میں نے اپنے جد بزرگوار سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص بھی قرآن کے بارے میں علم کے بغیر گفتگو کرتا ہے گویا وہ اپنے لیے جہنم میں جگہ فراہم کرتا ہے ۔

4- قرآن کریم میں ادبی گوشوں کی طرف توجہ

قرآن کریم میں اپنے مقصود کو بیان کرنے کے لیے بہت سی ادبی اصطلاح و روش سے استفادہ کیا گیا ہے، حضرت امام جعفر صادق نے قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں متعدد مقامات پراس ادبی روش کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلا: ان مقامات میں سےایک آیت «وما یَتَضرّعون» میں تضرع کے معنی سےمتعلق ہےکہ آپ نے فرمایا : تضرع سے مراد حالت نماز میں ہاتھوں کواوپر کی طرف اٹھانا ہے۔

ادبی گوشوں میں سے ایک تمثیل ہے یعنی مثال کے ذریعہ اپنی بات کو مخاطب تک پہنچانا کہ اس صنف سخن سے قرآن کریم میں بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے، یہ روش حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی تفسیری روایات میں بھی بہت زیادہ موجود ہے ۔ مثلا آپ نے آیت «و الّذین إذا أَنفقوا لم یُسرِفوا و لم یقتُروا و کان بین ذلک قَواماً» کی تفسیر تین کلمات اسراف، اقتار اور قوام کے معانی کو ایک تمثیل کے ذریعہ بیان فرمایا ہے، آپ نے ایک مٹھی ریت کو اٹھایا اور پھر اپنی مٹھی کو کاملاکھول دیا اس طرح کہ تمام ریت زمین پر گرگئی اور فرمایا:یہ اسراف کا مطلب ہے ، پھر دوبارہ ریت کو اٹھایا اور اس مرتبہ مٹھی کو مضبوطی سے بند رکھا اس طرح کہ اصلا ریت زمین پر نہیں گری اور فرمایا: یہ قتار ہے اور پھر اپنی مٹھی کو تھوڑا سا کھولا اس طرح کہ آدھی ریت زمین پر گرگئی اور آدھی آپ کے ہاتھ میں رہہ گئ تب فرمایا: یہ قوام کا مطلب ہے ۔

5- قرآن کی قرآن سےتفسیر

قرآن کریم کی آیات دو حصوں میں منقسم ہیں ایک محکم اور د وسری متشابہ ، متشابہ آیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو پہلے محکم آیات سے ملایا جائے تاکہ کسی دھوکے اور غلط معانی کو اخذ نہ کیا جاسکے، حضرت امام جعفرصادق اس سلسلے میں فرماتے ہیں: جو شخص بھی قرآن کریم کی متشابہ آیات کو سمجھنے میں اس کی محکم آیات کا سہارا لے تو گویا اس نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے ۔ لہذا بہت سے ایسے مقامات نظر آتے ہیں کہ جہاں پر آپ نے ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیر فرمائی ہے کہ ان مقامات میں سے ایک آیت «مَن یَهدِ اللهُ فهو المهتد و مَن یُضلِل فَلَن تَجِد له ولیّاً مُرشدا» ہے کہ جس کی آیت «و یُضِلّ اللهُ الظالمین و یفعل الله ما یشاء» کے ذریعہ سے تفسیر فرمائی اورارشاد فرمایا: خداوند عالم کا گمراہ کرنا ظالمین سے مربوط ہے ۔

دوسری روایت میں مذکور ہے کہ آپ سےآیت «ایّتُها العیر انّکم لسارقون» کے متعلق سوال کیا گیا کہ جب کہ جناب یوسف کے بھائیوں نے چوری نہیں کی تھی تو پھر کیوں ان کو چور کہہ کر مخاطب کیا گیا ؟ تب آپ نے اس کے جواب میں اس آیت «بل فَعَلَهم کبیرُهُم هذا» کے ذریعہ جواب دیا اور فرمایا: جس طرح حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کے بعد کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں ڈال کریہ کام اس کے سر لگا دیا اسی طرح حضرت یوسف نے بھی انجام دیا لہذا یہ جھوٹ نہیں ہے بلکہ مخاطبین کو حقیقت سے آگاہ کرنے کا ایک راستہ ہے وہ یہ کہ بتوں کے بس کی بات کچھ بھی نہیں ہے ۔حضرت یوسف نے بھی یہی روش اختیار کی اور اس طریقہ سے وہ اپنے بھائیوں کو ایک حقیقت یاد دلانا چاہتے تھے تاکہ اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھ سکیں۔

6- تفسیر بالرائے سے منع کرنا

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات میں قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق جن چیزوں کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے ان میں ایک مہم ترین چیز تفسیر بالرائے سے منع کرنا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ تفسیر بالرائے ، معتبر منابع و اصول و قوانین کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر کرنے سے علیحدہ وجدا ہے، تفسیر بالرائے حقیقت میں تفسیر کے اصول و قوانین کو چھوڑ کر اپنی ذاتی رائے کو پیش کرنے کا نام ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع)اس سلسلے میں فرماتے ہیں: جو شخص بھی قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق انجام دے چاہے وہ تفسیر صحیح ہی کیوں نہ ہو تب بھی اس پر کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا اور اگر وہ تفسیر غلط ہو تو بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔

7- حضرات معصومین کے کلام سے قرآن کریم کی تفسیر میں استفادہ

حضرت امام جعفر صادق کی روایات میں ایک مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں دیگر معصومین علیہم السلام کی روایات سے استدلال و استفادہ فرماتے تھے۔ ان موارد میں سے بطور نمونہ مثلا اس آیت «إِنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنىَ أُوْلَئکَ عَنهَْا مُبْعَدُون» کی تفسیر میں اپنے جدبزرگوار حضرت علی علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رسول خدا نے مجھ سے ارشاد فرمایا:کہ یہ ایت آپ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

تبصرے
Loading...