قرآن کریم ماورائے تحریف

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ،مگر یہ کہ دونوں مکاتب (شیعہ اور سنی)کے کچھ راویوں نے گنے چنے ضعیف حدیثوں پر تکیہ کرکے تحریف قرآن کا ادعا کئے ہیں. انہی کو مدرک قرار دیتے ہوئے وہابی پورے مکتب تشیع پر تحریف کے قائل ہونے کی تہمت لگا کر دوسروں کے سامنے مکتب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جو بہت ہی ناانصافی ہے.

اہل سنت کا عالم دین ابن الخطیب مصری ہے جس نے ایک کتاب(الفرقان فی تحریف القرآن) جو ؁۱۹۴۸ میلادی بمطابق ۱۳۶۷؁ ہجری میں لکھی تھی ، جس میں  تحریف قرآن کو ثابت کیا تھا لیکن جامعۃ الازہر کے عمادین نے فوراً سارے نسخوں کو جمع کرکے ضبط کر لیا.

اسی طرح ایک شیعہ محدث حاجی نوری نے   ؁۱۲۹۱ ہجری قمری میں «فصل الخطاب فی تحریف کتاب ربّ الارباب» نامی ایک کتاب لکھی جو شائع ہوتے ہی حوزہ علمیّہ نجف اشرف علماء  نے جمع آوری کرکے ضبط کرلیا ، اور اس کتاب کی رد میں خود شیعہ فقہاء نے بہت ساری کتابیں لکھی  ہیں، جیسے: 

۱- فقیہ عالی قدر مرحوم شیخ محمود بن ابی القاسم، (متوفّای سال ۱۳۱۳)نے کتاب«کشف الارتیاب فی عدم تحریف الکتاب» لکھی ہے

۲- مرحوم علّامہ سیّد محمّد حسین شہرستانی (متوفّای ۱۳۱۵)نے  کتاب«حفظ الکتاب الشریف عن شبهة القول بالتحریف» کتاب فصل الخطاب کی رد میں لکھی ہے.

۳- مرحوم علّامہ بلاغی (متوفّای ۱۳۵۲) محقّق حوزہ علمیّہ نجف نے  کتاب«تفسیر آلاء الرّحمان» لکھی ہے.

۴- آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے  کتاب انوارالاصول میں عدم تحریف قرآن مجید کوثابت کرتے ہوئے فصل الخطاب کیلئے دندان شکن جواب دیا ہے.

علّامہ بلاغی  لکھتے ہیں کہ مرحوم حاجی نوری ضعیف روایات پر تکیہ کرتے تھے  اپنی کتاب لکھنے کے بعد وہ خود بھی پشیمان ہوئے  اور مجبور ہوکراپنی ہی کتاب کی رد میں ایک مقالہ لکای.۲

اس کے باوجود متعصب وہابی حضرات شیخ نوری کی باتوں کو شیعہ عقیدہ  سمجھتے ہوئے قرآن کریم کی اہمیت اور سند کو مخدوش کرنا چاہتے ہیں. ہم کہیں گے کہ اگر ایک ضعیف حدیث پر مبنی کتاب شیعہ اعتقادات پر دلیل بن سکتی ہے تو  ابن الخطیب مصری کی کتاب (الفرقان فی تحریف القرآن) کو سنی اعتقادات پر دلیل بنا کرتحریف قرآن کے قائل ہونے  کی نسبت دے سکتے تھے  ، لیکن ہم یہ ناانصافی نہیں  کرتے.

اس کے علاوہ تفسیر قرطبی اوردرّالمنثور کہ یہ  دو اہل سنّت کی معروف تفسیریں ہیں جن میں  حضرت عائشہ سےنقل کرتے ہیں

: انّہا(ای سورة الاحزاب) کانت ماتی آیة فلم یبق منہا الّا ثلاث و سبعین! سورہ احزاب ۲۰۰ آیتوں پر مشتمل تھا لیکن اب صرف  ۷۳ آیتیں باقی ہیں.(۱)

اس کے علاوہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی کئی روایتیں نقل ہوئی ہیں جن سے تحریف قرآن ثابت ہوتی ہے.(۲)

حاجی نوری نےکتاب فصل الخطاب کی روایتوں کو تین  راویوں جویا فاسد المذہب یا جھوٹے  یا مجہول الحال (احمد بن محمّد السیاری فاسد المذہب، علی بن احمد کوفی کذّاب و ابی الجارود مجہول یا مردود)سے نقل کئے ہیں(۳)

حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی کی زیارت بیت اللہ (زیارت عمرہ)  کے دوران وزیر امور مذہبی عربستان کیساتھ  ملاقات  ہوئی استقبال کرنے کے بعد کہا:ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگوں کا الگ  کوئی قرآن ہے :سمعت انّ لکم مصحفاً غیر صحفنا!!.

تو آپ نے فرمایا: اس کا امتحان لینا بہت آسان ہے کہ آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ ہمارے ساتھ تہران بھیجیں اور مساجد اور گھروں میں دیکھیں کہ ہر ایک گھر وں اور مسجدوں میں سینکڑوں قرآن ملیں گے جو تمھارے پاس ہیں. آپ جیسے دانشور لوگ بھی ان جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں. اسی طرح ہمارے بہت سارے چھوٹے بڑے قارئین محترم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں اور انعام بھی حاصل کرچکے ہیں ، کیا کوئی اور قرآن ان کے پاس تھا؟(۴)

————–

(۱):-تفسیر قرطبی، جلد ۱۴، صفحہ ۱۱۳ ،تفسیر الدرّ المنثور، جلد ۵، صفحہ ۱۸۰.

(۲):- صحیح بخاری، جلد ۸، صفحہ ۲۰۸ تا ۲۱۱ ،صحیح مسلم، جلد ۴، صفحہ ۱۶۷ و جلد ۵، صفحہ ۱۱۶.

(۳):- رجال نجاشی ،اور فہرست شیخ.

(۴):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۲۵

عدم تحریف پرعقلی و نقلی دلیلیں

قرآن :

 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ؛ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت کوبھی اپنے ذمہ لیاہے . (۱)

دوسری جگہ فرمایا:وَ إِنَّهُ لَكِتابٌ عَزِیزٌ* لا يَأْتِیهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیلٌ مِنْ حَكِیمٍ حَمِیدٍ. (۲)

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کتاب میں کوئی تبدیلی  لاسکتا ہے  جس کی حفاظت کا ذمہ  اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہو. اور یہ قرآن، متروک اور فراموش شدہ کتاب تو نہیں تھی بلکہ ہر کسی کے زبان پر قرآن کی آیات کی تلاوت جاری تھی .

کاتبان قرآن (ُتّاب وحی) کہ جن کی  تعداد ۱۴ افراد سے لیکر تقریباً ۴۰۰ افراد بتائی  گئی ہے جو آیت کے نازل ہوتے ہی لکھ لیتے تھے  اور سینکڑوں حافظ عصر پیغمبر  میں حفظ کرلیتے تھے اور  قرآن کی تلاوت   مہمترین عبادت میں شمار ہوتے تھے اور دن رات تلاوت کرتے رہتے تھے.

عقل:

 عقل کہتی ہے کہ ایسی کتاب کبھی تحریف کا شکار نہیں ہوسکتی جس کی ضمانت خود اللہ تعالیٰٰ نے دی ہو.اور اگر تحریف کے قائل ہوجائیں تو قرآن معیار حق نہیں بن سکتا.

————–

(۱):- سورہ حجر، آیہ ۹.

(۲):- سورہ فصّلت، آیہ ۴۱ و ۴۲.

روایات:

وہ اسلامی روایات جو  آئمہ معصومین سے ہم تک پہنچی ہیں سب میں عدم تحریف کو بیان کیا گیا ہے :

 امیرالمؤمنین علی (علیه السلام) نہج البلاغہ میں صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:انْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِكُلِّ شَىْ‏ء وَ عَمَّرَ فِیكُمْ نَبِيَّهُ ازْمَاناً حَتَّی اكْمَلَ لَهُ وَ لَكُمْ فِیمَا انْزَلَ مِنْ كِتَاب، دِینَهُ الَّذِی رَضِىَ لِنَفْسِهِ‏.

اللہ تعالیٰ نےایسا قرآن نازل کیا ہے جس میں ہر چیز بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول گرامی اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم )کو اتنی عمر عطا کی کہ اپنے دین کو قرآن کے ذریعے کامل کرسکے(۱)

نویں امام حضرت محمّد بن علی التقی (علیه السلام )نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:وَ كَانَ مِنْ نَبْذِهِمُ الْكِتَابَ أَنْ اقَامُوا حُرُوفَهُ وَ حَرَّفُوا حُدُودَهُ‏ (۲)

یعنی بعض لوگوں نے قرآن مجید کواس طرح  چھوڑدیا ہےکہ   اس کے مفہوم میں تحریف کئے ہیں اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ الفاظ قرآن میں کوئی  تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن معنی  اپنے اپنے خیال اور مرضی کے مطابق  کئے ہیں.

ایک اور دلیل حدیث ثقلین ہے :إِنّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثِّقْلَيْنِ كِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتی أَهْلَ بَيْتی مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا. (۳) اگر قران میں تحریف  ہو چکا ہو تو کیسے یہ باعث ہدایت  بن جائے گا؟

————–

(۱):- نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶.

(۲):- کافی، جلد ۸، صفحہ ۵۳.

(۳):- بحارالانوار، جلد ۳۶، صفحہ ۳۳۱.

تحریف معنوی کا  امکان

تحریف والی بات جو مشہور ہوئی ہے وہ تحریف  معنوی ہے نہ لفظی.

اسی طرح ہمارے آئمہ طاہرین کی طرف سے یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی روایت تمہیں ملے اسے قرآن کے ساتھ موازنہ کرو اگر خلاف قرآن نکلے تو اسے دیوار پر  دے مارو. یعنی دور پھینک دو:اعرِضُوهُمَا عَلَی كِتَابِ اللهِ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللهِ فَخُذُوهُ وَ مَا خَالَفَ كِتَابَ اللهِ فَرُدُّوهُ. (۱)

یہ ساری دلیلیں بتاتی ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان پر وہابیوں کی طرف سے صرف بہتان اور تہمت ہے.

لیکن اس کے مقابلے میں خود اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عایشہ تحریف کے قائل ہیں:

سؤال ۱۴۷:  کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل ہیں  اور کہتے ہیں کہ کچھ آیات جیسے  آیۃ رجم  مفقود ہوئی  ہیں؟!

جواب: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت عمر تحریف قرآن کے قائل تھے۔ ان کے قول کا اصل متن یہ ہے:

————–

(۱):- وسائل الشیعہ، جلد ۱۸، صفحہ ۸۰.

 ان اللّه بعث محمداً بالحق، و انزل علیه الکتاب، فکان مما انزل اللّه آیة الرجم فقراناها و عقلناها و وعیناها، فلذا رجم رسول اللّه ،و رجمنا بعده فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل: و اللّه ما نجد آیة الرجم فی کتاب اللّه فیضلوا بترک فریضة انزلها الله، و الرجم فی کتاب اللّه حقّ علی من زنی اذا احصن من الرجال. ثم انّا کنا نقرا فیما نقرا، من کتاب الله: ان لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم ان ترغبوا عن آبائکم.. (۱)

سیوطی از حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) چنین نقل کردہ:«اذا زنی الشیخ و الشیخة فارجموهما البته نکالاً من اللّه واللّه عزیز حکیم» .(۲)

و حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ قائل بہ ناپدید شدن دو سوم احزاب است و حضرت ابوموسی اشعری(رضی اللہ عنہ) قائل بہ ناپدید شدن دو سورہ از قرآن بہ نام حفد و خلع است.

آیا این ادعاہا بہ معنای تحریف قرآن نیست؟ و آیا ما می توانیم بہ این قرآن استدلال کنیم و در برابر یہود و نصاری مدعی سلامت قرآن و عدم سلامت تورات و انجیل موجود شویم؟!

آیا اگر حضرت عمر و عائشہ و اشعری قائل بہ تحریف قرآن ہستند ما چرا شیعہ را بہ تحریف قرآن متہم می کنیم؟

۲ ـ حضرت عائشہ فرمودہ:«کانت سورة نقرا فی زمن النبی ماتی آیة، فلما کتب عثمان المصاحف لم نقدر منها الاّ ما هو الان» .(۳) حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ می گوید:«کان فیما انزل من القرآن: عشر رضعات معلومات یحرّمن ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفی رسول الله ـ صلی الله علیه و سلّم ـ و هنّ فیما یقراً من القرآن» .(۴)

————–

(۱):- ۔صحیح بخاری ۸: ۲۶ ـ صحیح مسلم ۵: ۱۱۶ ـ مسند احمد ۱: ۴۷ .

(۲):- الاتقان ۱: ۱۲۱.

(۳):- الاتقان ۲: ۴۰۔

(۴):- صحیح مسلم ۴: ۱۶۷

حضرت عبد اللّہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) کہتا ہے کہ بہت سی آیات گم ہوچکی ہیں:

لیقولنَّ احدکم قد اخذت القرآن کلّه و ما یدریه ما کلّه؟ قد ذهب منه قرآن کثیر، و لیقل قد اخذت منه ما ظه .(۱)

 مصحف حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہا ـ میں یوں بیان ہوا ہے:

«انّ اللّهَ و ملائکته یصلون علی النبی یا ایّها الذین آمنوا صلّوا علیه و سلموا تسلیماً و علی الذین یصلّون الصفوف الاول» .(۲)

عبدالحسین یا عبداللہ؟!!

کیو ں شیعہ اپنے بچوں کا نام عبد العلی اور عبدالحسین  رکھتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا شیعہ اللہ کے بندے نہیں ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے دو معنی ہیں : پرستش اور عبادت کرنا  کہ جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کیلئے جائز نہیں ہے .

 دوسرا معنی اطاعت ہے.تو عبدالحسین اور عبد العلی اور عبدالنبی سے مراد ان کا مطیع ہونا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے :وَ أَنْكِحُوا الْأَیامی‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحینَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ الل ه مِنْ فَضْلِهِ وَ الل ه واسِعٌ عَلیمٌ . (۳) اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموںاور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکا ح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے.اس آیہ شریفہ میں کلمہ عبد غلاموں کے بارے میں استعمال کیا ہے  اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ غلام ضرور اپنے آقا کی اطاعت کرے.

————–

(۱):- الاتقان ۲: ۴۲ ـ۴۱ ـ۴۰.

(۲):- الاتقان ۲: ۴۲ ـ۴۱ ـ۴۰.

(۳):- النور : ۳۲.

علمائے اہل سنت نے بھی اس کے جواز پر فتاویٰ دیے ہیں جن میں سےکچھ یہ ہیں:-وکذا عبد الکعبة او الدار او علی او الحسن لایهام التشریک ومثله عبد النبی علی ما قاله الاکثرون والاوجه جوازه لا سیما عند ارادة النسبة له (۱)

قوله وکذا عبد النبی ای وکذا یحرم التسمیة بعبد النبی ای لایهام التشریک ای ان النبی شریک الله فی کونه له عبید وما ذکر من التحریم هو معتمد ابن حجر .(۲)

اس کے علاوہ  اہل سنت کے بڑے بڑے علماء جن کے نام عبد النبی  جیسے ہیں بہت سارے ہیں:

الشیخ عبد النبی المغربی المالکی الشیخ الامام العلامة الحجة القدوة الفهامة مفتی السادة المالکیة بدمشق (۳)

عبد المطلب بن ربیعة ابن الحارث بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمی له صحبة (۴)

القاضی عبد النبی الاحمد نجری من رجال المائة الثانیة عشرة صاحب جامع العلوم الملقب بدستور العلماء .(۵)

عبد قیس بن لای بن عصیم من الصحابة الذین شهدوا احدا (۶)

عبد النبی بن محمد بن عبد النبی المغربی ثم الدمشقی المالکی (۷)

————–

(۱):-  اعانة الطالبین للدمیاطی ج ۲ ص ۳۳۷ ط دار الفکر بیروت.

(۲):- شذرات الذہب ج ۸/ ص ۸۳ ط دار ابن کثیر بدمشق ۱۴۰۶ و ج ۸/ ص ۱۲۶، الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة ج ۱/ ص ۱۱۲ و تاریخ البصروی ج ۱/ ص ۱۰۸.

(۳):- سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۱۱۲.

(۴):- قواعد الفقہ لمحمد عمیم البرکتی ج ۱ ص ۱۴۸ دار النشر الصدف کراشی ۱۴۰۷

(۵):- الاصابة ج ۴ ص ۳۸۰

(۶):- الضوء اللامع ج ۵ ص ۹۰.

(۷):- فی الذیل علی کشف الظنون ج ۳ ص ۵

فخر الزمان عبد النبی ابن خلف القزوینی (۱)

ومحمد عبد الرسول الهندی. (۲)

عبد المطلب بن عبد القاهر بن محمد الماکسینی زین العابدین الشافعی (۳)

عبد قیس النکری البصری من الرواة من ابن سیرین (۴)

محمد ابن عبد الرسول المدنی عالم مکة .(۵)

————–

(۱):-

(۲):- فہرس الفہارس والاثبات ومعجم المعاجم والمسلسلات ج ۲ ص ۸۴.

(۳):- الدرر الکامنة فی اعیان المئة الثامنة ج ۳ ص ۲۱۸.

(۴):- لتاریخ الکبیر ج ۲ ص ۲۵۵.

(۵):- البدر الطالع ج ۱ ص ۲۸۹/

اقتباس از کتاب شیعہ عقائد پر شبہات اور ان کے جوابات

تبصرے
Loading...