قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) ایک دوسرے کے ساتھ

خلاصہ: رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدیث ثقلین میں قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کو دو ایسی چیزوں کے طور پر متعارف فرمایا جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے آپ ؐ  کے پاس آئیں۔

قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) ایک دوسرے کے ساتھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا: “إِنِّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَیْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَیْتِی وَ إِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّى یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ“، “یقیناً میں تم لوگوں میں دو بھاری (قیمتی) چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جنہیں اگر تم تھام لو تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اللہ کی کتاب اور میری عترت جو میری اہل بیت ہے اور یہ دونوں (ایک دوسرے سے) ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آئیں” [بحارالانوار، ج۲، ص۲۸۵]۔
مرحوم آیت اللہ بہجت فرماتے تھے: یہ روایت شریف، شیعہ کے رازوں میں سے ایک راز کو بیان کرتی ہے اور وہ راز یہ ہے کہ یہ دو جدا نہیں ہوسکتے۔ ہم غیبت کے دور میں واقع ہوئے ہیں اور ظاہری طور پر ہماری اپنے وقت کے امام تک رسائی نہیں ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر اگر ہم نے قرآن سے رابطہ قائم کیا تو ہم امام زمانہ (علیہ السلام) سے منسلک ہوگئے ہیں۔ کیونکہ امام زمانہ (علیہ السلام) کی قرآن سے جدائی ممکن نہیں ہے۔ نہ یہ کہ فرضی طور پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے، بلکہ یہ دونوں ایک حقیقت ہیں، یہ جو فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے، حقیقت کی خبر دے رہے ہیں، یعنی یہ دونوں واحد حقیقت ہیں اور غیبت کی تلافی کردی گئی ہے۔
بنابریں آپ فرماتے تھے: اگر کوئی شخص غیبت کے دور میں امام زمانہ (علیہ السلام) کو تلاش کرنا چاہتا ہے، تو قرآن کی طرف رجوع کرے اور قرآن سے انس پیدا کرے تا کہ اس حقیقت تک پہنچ جائے۔
لہذا جب ہمارا دل حضرتؑ کے لئے اداس ہوجائے تو ہم قرآن کی طرف رجوع کرنے کے ذریعے اپنے آپ کو تسلی دے سکتے ہیں اور حضرتؑ کو پاسکتے ہیں، اس نقطہ نگاہ کے ذریعے غیبت ہٹ جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی، ص25، 26۔

تبصرے
Loading...