صدائے بازگشت

خلاصہ: انسان اگر کسی کو سناتا ہے تو سننے کی طاقت بھی رکھے۔

صدائے بازگشت

 

خالد ایک شریر بچہ تھا اور اسے ہمیشہ شرارت کی سوجھی رہتی تھی، اس کا باپ کسی میدان میں کام کررہا تھا، ایک دن وہ اپنے باپ کا کھانا لے کر چلا، چوتی کے اوپر چٹان کے پیچھے اسے ایک سایہ نظر آیا، اس نے سمجھا ، ہو نہ ہو اوپر کوئی بچہ ضرور ہوگا جس کا وہ سایہ پڑرہا ہے، اس نے زور سے چیخ لگائی: ہے!!! چوٹی کے اوپر سے بھی ایک آواز آئی: ہے!!!
خالد کو پتہ نہیں تھا کہ یہ صدائے بازگشت ہے اور میری اپنی ہی آواز پہاڑ سے ٹکرا کر واپس آرہی ہے، اس نے سمجھا کہ وہ بچہ چوٹی کے اوپر ہے جہاں سے وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے، اس نے غصہ میں لال پیلا ہوکر کہا: ’’ گھبراؤ نہیں بس میرے آنے کا انتظار کرو، دیکھو میں اوپر آکرکیا کرتا ہوں‘‘۔ اوپر سے آواز آئی: ’’ گھبراؤ نہیں بس میرے آنے کا انتظار کرو، دیکھو میں اوپر آکرکیا کرتا ہوں‘‘۔
اب تو خالد غصے میں بے قابو ہونے لگا تھا اور پورا زور لگا کر کہا: اے بزدل ! ہمت ہے تو باہر نکلو اور آکر مجھ سے مقابلہ کرو۔ جب بالکل یہی جواب اس کے کانوں میں پڑا تو وہ بے تاب ہو کر چوٹی پر چڑھنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں تھک کر چور ہوگیا؛ مگر اسے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے سمجھا ہو نہ ہو وہ بچہ کہیں اور جا کر چھپ گیا ہوگا، چنانچہ وہ چٹان کے اوپر چڑھ گیا اور چاروں طرف آواز لگانے لگا اور دل ہی دل میں سوچ رہا ہے کہ اگر وہ بچہ مل گیا تو میں اس کا برا حال کردوں گا؛ مگر وہ مگر وہ بزدل بچہ، خالد کے سامنے آنے کی ہمت نہ کرسکا۔
بہت دیر کے بعد خالد کو اپنے باپ کی یاد آئی کہ اب تک تو بھوک سے اس کا برا حال ہوگیا ہوگا، وہ سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس نے سارا قصہ اپنے باپ کو کہہ سنایا، اس کے باپ نے اسے ایک محاورہ سنایا: ’’وہ شخص جو اپنی من چاہی دوسروں کو سنانا چاہتا ہے، اسے وہ کچھ سننا پڑتا ہے جسے وہ سننا نہیں چاہتا‘‘۔
پیارے بچو! اگر خالد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث یاد رہی ہوتی تو وہ اپنے آپ پر اس طرح بے جا ظلم نہ کرتا: ’’ مَنْ‏ كانَ‏ يُؤْمِنُ‏ بِاللَّهِ‏ وَ الْيَوْمِ‏ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ‏ خَيْراً أَوْ لِيَصْمُت‏‘‘( مجموعة ورام، ج‏1، ص: 98) جوشخص اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ زبان سے اچھی بات نکالے یا پھر خاموش رہے۔

 

منبع و ماخذ
(مجموعة ورام،ورام بن أبي فراس، مسعود بن عيسى، ناشر: مكتبه فقيه‏، قم‏، 1410 ق‏، چاپ اول‏)

تبصرے
Loading...