خلق قرآن کا شبھہ اور امام حسن عسکری(علیہ السلام)

خلاصہ: عباسیوں کے زمانہ میں بہت زیادہ شبھات و اعتراضات موجود تھے، انہی شبہات میں سے ایک شبھہ، قرآن کے قدیم یا حادث ہونے کا شبھہ ہے۔ اس مضمون میں امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے اس شبھہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اس کو بیان کیا گیا ہے۔

خلق قرآن کا شبھہ اور امام حسن عسکری(علیہ السلام)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     امام محمد تقی(علیہ السلام) اور امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے زمانے میں قرآن کے مخلوق ہونے کا مسئلہ درپیش تھا اور اس مسئلہ کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا کہ مخالفین کے کتنے افراد اسی مسئلہ پر قتل ہو گئے، دشمن نے اسلامی معاشروں میں جان بوجھ کر یہ مسئلہ رائج کردیا تھا جس پر فریقین مدمقابل آکھڑے ہوئے تھے، عباسیوں کی ایک سیاست یہی تھی کہ مخالفین کو سرگرم کرنے کے لئے کسی عقیدے سے متعلق فتنہ کو عام کردیتے تھے، اسی سیاست کا ایک حصہ یہ مسئلہ بھی تھا جسے خلقِ قرآن یا حدوث قرآن سے تعبیر کیا جاتا ہے[۱]۔
     اس مسئلہ کے نتیجہ میں بعض لوگوں نے قرآن مجید کے قدیم ہونے کا عقیدہ اختیار کرلیا اور کہنے لگے کہ جب قرآن کریم کا نازل کرنے والا قدیم ہے اور قرآن اسی کا کلام ہے لہٰذا وہ بھی قدیم ہے، یہ مسئلہ اس قدر پھیل گیا کہ خلفاء اور وزراء تک اس کی لپیٹ میں آگئے اور علمی و ثقافتی محافل میں اس مسئلہ کے صحت و سقم پر بحثیں ہونے لگیں۔
     امام حسن عسکری( علیہ السلام) اپنے آباء و اجداد کی طرح قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا برحق عقیدہ وقت کی نزاکت کے مطابق ماننے والوں کو سمجھاتے رہے، اس کے بارے میں ابو ہاشم کہتے ہیں میں نے اپنے آپ سے کہا اگر قرآن کے قدیم یا حادث ہونے کے بارے میں مجھے امام( علیہ السلام )کی نظر معلوم ہوجاتی تو کتنا اچھا ہوتا، اسی وقت امام(علیہ السلام) نے میری طرف رُخ کیا اور فرمایا: اے ابو ہاشم! کیا تم تک میرے جد امام صادق(علیہ السلام) کی حدیث نہیں پہنچی جس میں آپ نے« قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ »کے نزول کے بارے میں فرمایا ہے: خداوند متعال نے اس کے لئے چار ہزار بال(پر)خلق فرمائے اور فرشتوں کا کوئی بھی گروہ اس کے سامنے سے نہیں گزرتا تھا مگر یہ کہ اس کے سامنے خشوع کرتا تھا[۲]، اور فرمایا:”ان اللہ خالق کل شیئ و ما سواہ مخلوق” یعنی بے شک خداوند متعال ہر چیز کا خالق ہے اور اُس کے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے[۳]۔
     امام(علیہ السلام) کے اس کلام کے ذریعہ امام نے لوگوں کے لئے اس بات کو واضح فرمادیا ہے کہ خدا وند عالم ہر چیز کا خلق کرنے والا(خالق) ہے اور اس کے علاوہ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب کی سب مخلوق ہیں یعنی خدا نے ہر چیز کو خلق کیا ہے جب اس نے ہر چیز کو خلق فرمایا ہے تو خود ہماری عقل اس بات کو اچھی طرح سمجتی ہے کہ خلق کرنے والا(خالق) مخلوق سے پہلے ہوتا ہے، اس بات سے پتہ چلا کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی چیز خالق نہیں ہے اور نہ ہی قدیم، چاہے وہ قرآن ہی کیوں نہ ہو۔

تفصیل کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعہ کریں:
۱۔ محمد باقر كلينى، أصول الكافي / ترجمه كمره‏اى، اسوه – ايران ؛ قم، ،ج۱، ص۵۶۸،۱۲۷۵ ش.
۲۔ محمد باقر كراجكى، گنجينه معارف شيعه إماميه / ترجمه كتاب كنز الفوائد و التعجب،چاپخانه فردوسى – تهران، ج۱، ص۲۶، بى تا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۳۵، ۱۳۸۴ش۔
[۲] «لما نزلت‏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ خلق الله اربعة آلاف‏ جناح‏، فما كانت تمر بملاء من الملائكة الا خشعوا لها، و قال: هذه نسبة الرب تبارك و تعالى».عبد على بن جمعة العروسى الحويزى، تفسير نور الثقلين، اسماعيليان – قم، چاپ: چهارم، ج۵، ص۷۰۶، ۱۴۱۵ ق.
[۳]۔زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، ص۱۳۸۔

تبصرے
Loading...