حمد، مدح اور شکر کامفہوم (خطبہ فدکیہ کی تشریح)

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ کی ابتداء میں جو فرمایا: الحمدللہ….، اس کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ حمد، مدح اور شکر میں فرق ہے، لہذا الحمدللہ کی جگہ پر المدح للہ یا الشکر للہ اگر کہا جائے تو الحمدللہ کے معنی ادا نہیں ہوں گے۔

حمد، مدح اور شکر  کامفہوم (خطبہ فدکیہ کی تشریح)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ تیسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ کی ابتداء جو “الحمدللہ” سے کی ہے، اس لفظ “الحمدللہ” کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ کیسے ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔
حضرت سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ“…[1]، “آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) “…۔
تشریح: حمد اور مدح کا فرق:” تعرف الاشیاء باضدادها[2]“،”چیزوں کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے” کے ضابطہ کو استعمال کرتے ہوئے حمد، مدح اور شکر کے معانی زیادہ واضح ہوسکتے ہیں۔ حمد کا متضاد لؤم (مذمت) ہے۔ کسی شخص کی مذمت کرنا تب صحیح ہوسکتی ہے کہ اس شخص سے غلط اور برا کام، اختیاری حالت میں سرزد ہوا ہو، کیونکہ وہ بااختیار تھا اور اس کام کو چھوڑ سکتا تھا، لیکن اختیار کے باوجود اس نے اس کا ارتکاب کرلیا اسی لیے اس کی مذمت کی جائے گی، لہذا حمد کا مفہوم یہ ہے کہ اس اچھے عمل کی تعریف کرنا جو اختیار سے کیا گیا ہو، چاہے اس اچھے عمل کی اچھائی حمد کرنے والے کو پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، لیکن مدح کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اختیاری عمل پر کی جائے، غیراختیاری اچھائی پر بھی کی جاسکتی ہے، جیسے پانی کا ٹھنڈا اور میٹھا ہونا اس کی صفات ہیں اور نیز پیاس کو بجھانا پانی کی تاثیر ہے، یہ صفت اور تاثیر غیراختیاری اور طبعی ہیں، مدح کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ فلاں چشمہ کتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے، اس جملہ کو مدح کہا جاتا ہے، پانی کی ذات کا ٹھنڈا اور میٹھا ہونا صدوری پہلو نہیں رکھتا کہ اسے عمل کہا جاسکے اور پھر سوال کیا جائے کہ کیا اختیار کی حالت میں تھا یا بے اختیار تھا؟ اسی لیے نہیں کہا جاسکتا کہ میں نے فلاں چشمہ کے پانی کی حمد کی۔ اس سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ حمد یعنی تعریف، احسان اور نیکی کی وجہ سے ہوتی ہے جو اختیار کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی ہو چاہے اس احسان اور نیکی کا حمد کرنے والے سے تعلق نہ بھی ہو اور مدح ان صفات اور اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے جو اختیار سے وقوع پذیر ہوں یا وہ ذاتی صفات ہوں۔ لہذا مدح کا مفہوم حمد سے زیادہ وسیع ہے۔[3]
حمد اور شکر کا فرق:  شکر کا متضاد کفران ہے اور کفران کہنا تب صحیح ہے کہ شخص نے نعمت کو استعمال کیا ہو اور اس سے فائدہ مند ہوا ہو، لیکن اس کے بدلہ میں نافرمانی کردی ہو اور اس کی قدر نہ سمجھی ہو۔ لہذا شکر کرنا اس نعمت پر صحیح ہے کہ وہ نعمت خود شکر کرنے والے کو پہنچی ہو، جبکہ حمد کے معنی میں بتایا جاچکا کہ وہ اچھائی چاہے حمد کرنے والے کو پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو۔[4]
الحمدللہ کی جامعیت: تین الفاظ کا باہمی مذکورہ بالا فرق کو جان لینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگر الحمدللہ کی جگہ پر المدح للہ کہا جائے تو ہوسکتا ہے کہ غیراختیاری کے مفہوم کو بھی شامل ہوجائے جبکہ ذات احدیت کی عظمت اور قدرت کاملہ، غیراختیاری ہونے سے پاک و منزہ ہے، لیکن حمد، خاص اور واضح تعریف ہے اس احسان کی وجہ سے جو اللہ کے کمال اور اختیار سے وقوع پذیر ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم کی آیت کریمہ کے مطابق اللہ “قہار” ہے، یعنی کوئی مخلوق اس پر غالب نہیں ہوسکتی، یہاں سے یہ نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ الحمدللہ کہنے والا اس بات کا بھی اقرار کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالی  نے اپنے اختیار سے احسان کیا ہے اور اس ذات کے لئے کوئی جبر نہیں پایا جاتا۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ میں الحمدللہ فرمایا ہے جس کے بجائے الشکر للہ کہنا مناسب نہیں لگتا کیونکہ جیسا کہ بیان ہوچکا شکر اس نعمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے جو خود شکر کرنے والے کو پہنچی ہو، جبکہ اس خطبہ میں مراد یہ ہے کہ اللہ کی اس کے اس عام انعام اور احسان پر تعریف کرتی ہوں جو اس نے ساری مخلوقات پر کیا ہے منجملہ آپؑ پر بھی انعام کیا ہے، حالانکہ یہ ہمہ گیریت اور وسیع شمولیت کا مفہوم، لفظ شکر سے ادا نہیں کیا جاسکتا۔
شکر حمد کی قِسم نہیں، شبہ کا ازالہ: اگر کوئی کہے کہ حمد، مدح اور شکر، تینوں الفاظ مرادف اور ہم معنی ہیں اور دعا میں بھی آیا ہے کہ الحمدللہ شکراً ، یہاں پر شکراً مفعول مطلق ہے جو فعل کی کیفیت کو بیان کرتا ہے، لہذا یہاں پر حمد شکر کی قسموں میں سے ہے، تو یہ نظریہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ دعا میں یہ لفظ شکر مفعول مطلق نہیں ہے، بلکہ مفعول لہ ہے اور عربی زبان میں مفعول لہ ہمیشہ کام کے مقصد کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ “وقفتُ احتراماً لمعلِّمی “یعنی میں کھڑا ہوگیا اپنے استاد کا احترام کرنے کے لئے، یہاں پر احتراماً مفعول لہ ہے جو کھڑے ہونے کا مقصد ہے، اسی طرح الحمدللہ شکراً کے جملہ میں شکر، حمد کرنے کا مقصد ہے بایں معنی کہ ساری حمد و تعریف اللہ کا شکر بجالانے کے لئے ہے، لہذا شکر کا مفہوم حمد کے مفہوم سے ہٹ کر ہے اور حمد اور مدح کے درمیان فرق بھی واضح ہوچکا، بنابریں یہ تین الفاظ مرادف اور ہم معنی نہیں ہیں۔
علامہ مرتضی مطہری ؒکی تفسیر کے مطابق حمد، مدح اور شکر کا فرق: ان کے بیانات کا خلاصہ یہ ہے کہ مدح ستائش (تعریف) کے معنی میں ہے۔ جب انسان کسی کمال و جمال اور خوبصورتی سے سامنا کرتا ہے مثلاً قرآن کریم کی خوبصورت تحریر کو دیکھتا ہے تو دیکھنے والے میں مدح کی حس، ردعمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے لہذا انسان اس تحریر کی مدح و تعریف کرتا ہے اور یہ حس فطری اور طبعی ہے، اگر اس موقع پر اس سے پوچھا جائے کہ کیوں مدح کررہے ہو، کیا تمہیں اس مدح کے بدلہ میں کچھ ملے گا؟ تو وہ جواب دے گا کہ ضروری نہیں ہے کہ مجھے اس مدح کے بدلہ میں کوئی چیز ملے، میں انسان ہوں اور انسان جب کسی عظمت، جلال، جمال اور کمال کا سامنا کرے تو خضوع کرتا اور اپنے اس خضوع کو مدح کی صورت میں اظہار کرتا ہے، یہ مدح کے معنی ہیں، لیکن حمد کا مفہوم صرف یہی نہیں ہے۔
ایک اور پاکیزہ حس انسان میں پائی جاتی ہے جو انسانی صفات میں سے ہے جسے شکر کہا جاتا ہے، شکر اس وقت ہوتا ہے جب کسی کی طرف سے انسان کو کوئی خیر اور نیکی پہنچے، انسان کی انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے شکریہ کا اظہار کرے۔ مثال کے طور پر جب ہم کار میں جارہے ہیں اور ہمارا کسی دوسری کار سے سامنا ہوتا ہے اور پہلے گزرنا اس کا حق ہے، لیکن وہ ہمیں پہلے گزرنے دیتا ہے تو انسانی ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے “شکریہ، مہربانی” جیسے الفاظ یا سر یا ہاتھ ہلانے سے اس کا شکریہ ادا کریں، یہ صفت اس حد تک حیوان میں نہیں پائی جاتی اور انسان سے مختص ہے اور اللہ تعالی یہ جو قرآن میں سوال کرتا ہے کہ “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ[5]“، “کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے”، یہ ایسا سوال ہے جو انسانی سلیم فطرت کو خطاب ہے اور انسان کا پاک ضمیر اس کا جواب دیتا ہے۔ شکر کی حس ایسی حس ہے جس کا حکم انسان کا ضمیر دیتا ہے اور اس کا رسم و رواج اور کسی علاقہ اور کسی زمانہ سے تعلق نہیں ہے، رسومات وقت اور جگہ کے بدلنے سے بدل جاتی ہیں اور بعض اوقات متضاد اور الٹ بھی ہوجاتی ہیں، جیسے سر سے ٹوپی کا اٹھانا اور ٹوپی کا رکھنا جو دونوں احترام کی علامتیں ہیں، لیکن ان میں سے ایک طریقہ کسی معاشرے میں رائج ہے اور دوسرا طریقہ کسی دوسرے معاشرے میں، لیکن کسی معاشرہ میں دکھائی نہیں دیتا کہ نیکی کا بدلہ برائی میں دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ اس علاقہ کا رواج ہے، لہذا شکر جیسی صفات کا انسانی ضمیر سے تعلق ہے۔
حمد، نہ خالص مدح ہے اور نہ خالص شکر، تو پھر کیا ہے؟ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان دونوں کو ملایا جائے تو حمد بنتی ہے۔ یعنی اللہ لائق مدح ہے کیونکہ وہ عظمت، جلال، کمال اور حُسن والا ہے اور شکر کا لائق ہے کیونکہ احسانات اس کی طرف سے پہنچتے ہیں، ایسے مقام پر حمد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ حمد کے معنی میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہو جو عبادت ہے، لہذا حمد میں تین چیزیں شامل ہیں: مدح، شکر اور عبادت۔ “الحمدللہ رب العالمین” میں حمد کا اللہ سے مختص ہونا اور اللہ کے علاوہ کسی کا محمود نہ ہونا، شاید اس وجہ سے ہے کہ حمد کے مفہوم میں، عبادت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔[6]
نتیجہ: حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ کبری (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں “الحمدللہ” فرما کر اللہ کی حمد و تعریف کی ہے۔ مذکورہ مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ حمد، مدح اور شکر کے معنی میں فرق ہے، ایسا نہیں کہ اگر حمدکی جگہ مدح یا شکر کے لفظ کو استعمال کیا جائے تو وہی حمد کے معنی ادا ہوجائیں، کیونکہ جس کی مدح کی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس اختیار نہ ہو اور جس کا شکر کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شکر کرنے والا اسی چیز کی وجہ سے شکر کررہا ہے جو اسے ملی ہے، لیکن حمد کا مفہوم ان دونوں سے زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے، یعنی ساری حمد و تعریف اللہ کی ہے کیونکہ اس نے اپنے اختیار سے عطا کیا ہے اور جس کو بھی عطا کیا ہے، چاہے حمد کرنے والے کو یا دوسروں کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] مجموعه آثار شهید مطهری . ج3، ص121۔
[3] شرح خطبه حضرت زهرا (س)، عزالدين‌ حسيني‌ زنجاني‌، ج1، ص36، 37 سے ماخوذ۔
[4] شرح خطبه حضرت زهرا (س)، عزالدين‌ حسيني‌ زنجاني‌، ج1، 37 سے ماخوذ۔
[5] سورہ رحمن، آیت 60۔
[6] آشنائی با قرآن، شہید مرتضی مطہری، ج2، صفحہ 19 سے 22 تک اقتباس کچھ کمی بیشی کے ساتھ۔

تبصرے
Loading...