حضرت امام علی النقی اور تفسیر قرآن

خلاصہ: قرآن کریم کی آیات کی تفسیر، اہل بیت (علیہم السلام) سے ہی دریافت کرنا چاہیے، کیونکہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) ثقلین اور دو قیمتی چیزیں ہیں اور اہل بیت (علیہم السلام) ہی قرآن کریم کی حقیقی اور صحیح تفسیر بیان فرما سکتے ہیں، ان عظیم ہستیوں میں سے ایک حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) ہیں جن سے کئی آیات کی تفسیر نقل ہوئی ہے۔

حضرت امام علی النقی اور تفسیر قرآن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب انسانوں کی تحریر و تصنیف کی گئی کتابوں کے لئے وضاحت کرنے والے استاد کی ضرورت ہے تو رب العالمین کی عظیم کتاب یعنی قرآن کریم کے لئے تو بڑھ چڑھ کر مفسر اور وضاحت کرنے والے شخص کی ضرورت ہے۔ قرآن کی حقیقی تفسیر وہی کرسکتا ہے جو قرآن مجید کا ہم پلہ ہو۔ حدیث ثقلین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دیا کہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کو تھام لیں کہ اگر ان دونوں کو تھام لیں تو ہرگز گمراہ نہ ہوں گے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس شخص نے قرآن یا اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیا وہ یقیناً گمراہ ہوجائے گا، لہذا قرآن کو اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کی روشنی میں سمجھنا چاہیے، ورنہ انسان گمراہی کے گھاٹ اتر جائے گا۔ ان اہل بیت (علیہم السلام) میں سے ایک عظیم شخصیت حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) ہیں۔ آپؑ سے قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے جو آپؑ نے “میسر” کی تفسیر فرمائی۔ ابراہیم ابن عنبسہ نے تحریری طور پر آپؑ سے آیت “يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ [سورہ بقرہ، آیت ۲۱۹] میں “میسر” کا مطلب دریافت کیا تو آپؑ نے جواب میں تحریر فرمایا: كل ما قومر به فهو الميسر، و كل مسكر حرام، “جس چیز سے بھی جوا کھیلا جائے وہ میسر ہے اور ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے”۔ [تفسیر عیاشی، ج۱، ص۱۰۶]۔
حوالہ:
[تفسیر عیاشی، محمد بن مسعود العياشي، تحقيق: الحاج السيد هاشم الرسولي المحلاتي، المكتبة العلمية الإسلامية، تہران]

تبصرے
Loading...