حضرت ابراہیمؑ کی امامت، مقام نبوت اور خلّت کے بعد

خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالی نے جو مقام امامت دیا وہ نبوت اور خلت کے بعد تھا، لہذا مقام امامت نبوت اور خلت سے بالاتر ہے اور جسے اللہ چاہے یہ مقام عطا فرماتا ہے، کوئی شخص کوشش کرکے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔

حضرت ابراہیمؑ کی امامت، مقام نبوت اور خلّت کے بعد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “إِنَّ الْإِمَامَةَ خَصَّ اللَّهُ بِهَا إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلَ ع بَعْدَ النُّبُوَّةِ وَ الْخُلَّةِ مَرْتَبَةً ثَالِثَةً وَ فَضِيلَةً شَرَّفَهُ بِهَا وَ أَشَادَ بِهَا ذِكْرَهُ فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَ‏ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً”، “یقیناً امامت (ایسا مقام ہے) جس سے اللہ نے ابراہیم خلیلؑ کو نبوت اور خلّت کے بعد تیسرے مقام پر مختص کیا اور آپؑ کو امامت کے ذریعہ فضیلت سے شرفیاب کیا اور آپؑ کے ذکر کو بلند کیا تو اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: “میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں”۔ [عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217]‏۔ ان فقروں میں حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت کو قرآن کریم کی رو سے بیان فرمارہے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ مقام امامت لوگوں کی عقلوں سے بالاتر کیوں ہے اور لوگ کیوں امام کو منتخب نہیں کرسکتے۔ آٹھویں تاجدار امامت کے ان فقروں سے چند اہم نکات سمجھ میں آتے ہیں:
۱۔ امامت ایسا بلند مقام ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی اور خلیل بننے کے بعد عطا ہوا، لہذا امامت نبوت اور خلّت سے بالاتر ہے۔
۲۔ امامت ایسا مقام ہے جس سے اللہ نے آپؑ کو شرفیاب کیا اور امامت کے ذریعہ آپؑ کا ذکر بلند کیا۔
۳۔ امامت ایسا مقام ہے جو اپنی کوشش سے حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ جسے اللہ چاہے اسے اس عظیم مقام پر فائز کرتا ہے، لہذا فرمایا: “إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً”۔
حوالہ
[عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378ش]
[آیت کا ترجمہ: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب کے ترجمہ قرآن سے]

تبصرے
Loading...