تلاوتِ قرآن کا شوق و جذبہ

خلاصہ: جب انسان قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس بات پر غور کرے کہ کیا یہ تلاوت شوق اور جذبہ سے کررہا ہے، کیا اسے قرآن سے محبت اور انس ہے یا کسی اور وجہ سے قرآن کی تلاوت کرتا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بعض بزرگ علماء نے فرمایا ہے: “قرآن، غیرمحرم سے بات نہیں کرتا”۔ غیرمحرم وہ شخص ہے جسے قرآن کریم سے انس اور محبت نہیں ہے۔ اگر کبھی قرآن کو کھول بھی لیتا ہے تو رغبت اور شوق کے بغیر کھولتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے اندر قرآن کریم کی پیاس پیدا کریں، جس قدر پیاس بڑھے گی، جب قرآن کو کھولیں گے تو اتنا ہی زیادہ محسوس کریں گے کہ ہمیں قرآن سے محبت ہے۔
تلاوتِ قرآن کے لئے شوق اور جذبہ پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے تھک جانے سے پہلے تلاوتِ قرآن روک لی جائے تا کہ انسان خوشی کی حالت میں قرآن سے الگ ہو، لہذا جب بھی قرآن کی تلاوت کرنا چاہیں گے تو شوق اور محبت کی کیفیت سے قرآن کو اٹھائیں گے اور دن بدن قرآن سے رابطہ اور انس کی شوق بڑھتی جائے گی۔ جیسا کہ حضرات معصومین (علیہم السلام) کی زیارت کے بارے میں فرمایا گیا ہے: “زُرْ وانصرف” زیارت کرکے پلٹ آئیں، یعنی زیادہ طویل نہ کریں کہ آپ کو تھکن محسوس ہو، بلکہ زیارت ایسی ہو کہ دوبارہ خوشی کے ساتھ آنے کے لئے جی چاہے۔
ہوسکتا ہے کہ یہ جذبہ اچانک ہمارے لیے پیدا نہ ہو، لیکن آہستہ آہستہ ظاہر ہوگا، جو افراد قرآن کے مشتاق ہوئے ہیں ان میں پہلے سے یہ شوق نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ قرآن رفتہ رفتہ اپنے پردے ہٹاتا ہے اور انسان کے لئے تازہ، لذیذ اور زیادہ لذیذ ہوجاتا ہے۔
قرآن میں داخل ہونے کی کنجی محبت ہے، یہ محبت جتنی بڑھتی جائے، اتنا ہی قرآن کا جذبہ انسان میں زیادہ ظاہر ہوتا چلا جاءے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی، ص32، 33۔

 

تبصرے
Loading...