تفسیر بالرائ کا مطلب

خلاصہ: قرآن مجید کی تفسیر اپنے ذاتی خیالات کے مطابق کرنا ایک نادرست عمل ہے۔

تفسیر بہ رائے کا مطلب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفسیر بالرائ، قرآن کریم کی تفسیر اور ادراک کے لئے غلط، غیرمعتبر اور لائقِ مذمت طریقہ ہے۔ راغب اصفہانی نے تفسیر بہ رائے کا مطلب یہ بتایا ہے:”رائے وہ عقیدہ ہے جس میں ظن و گمان غالب ہو” (راغب اصفهانی، المفردات، لفظ رأی)۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے تفسیر بہ رائے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے: تفسیر بہ رائے یعنی قرآن کی تفسیر کرنا علم لغت اور ادبیات عرب کے قواعد اور اہل زبان کی فہم کے خلاف اور اسے ذاتی یا کسی گروہ کے گمان اور باطل خیالات اور خواہشات پر منطبق کرنا (مکارم شیرازی، ظوابط تفسیر قرآن وخطرات تفسیر به رأی)۔
تفسیر بہ رائے کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے:
تفسیر کرنے والے کی ہوائے نفس کے مطابق کوئی خاص رائے اور عقیدہ ہو، پھر وہ کسی آیت کو اس پر منطبق کرے تاکہ اپنے اس عقیدہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرے، جبکہ قرآن کی آیت اس کے عقیدہ اور رائے کو بیان نہ کررہی ہو۔
تفسیر کرنے والا ان آیات پر جن کے الفاظ مبہم، مجمل اور عام وغیرہ ہیں ان الفاظ کے ظاہر پر اکتفاء کرے، اس کے بغیر کہ ادبی پہلووں اور آیات کی وجوہ کا خیال رکھے اور روایات کی پہچان کے بغیر اور کلام کے صرف ظاہر سے تفسیر قرآن کرے۔
اہل بیت (علیہم السلام) نے شدت سے تفسیر بہ رائے کی مذمت کی ہے، اس بارے میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض کو دیگر مضمون میں بیان کیا جائے گا۔
حوالہ:
[مکارم شیرازی، ظوابط تفسیر قرآن وخطرات تفسیر به رأی]

تبصرے
Loading...