بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا ثواب

خلاصہ: مندرجہ ذیل مضون میں دو روایات نقل کی جارہی ہیں جن میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا ثواب اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ دوسری روایت میں کچھ شرائط بھی بیان کی گئی ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا ثواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابن مسعود نے نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے: “مَنْ قَرَأ بِسمِ اللّهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ كَتَبَ اللّهُ لَهُ بِكُلِّ حَرفٍ أربَعَةَ آلافٍ حَسَنَةً و مَحیٰ عَنهُ أربَعَةَ آلافِ سَيِّئَةٍ و رَفَعَ لَهُ أربَعَةَ آلافِ دَرَجَةٍ”، “جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے اللہ اس کے لئے ہر حرف کے بدلے چار ہزار نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس سے چار ہزار گناہ مٹا دیتا ہے اور اسے چار ہزار درجہ بلند کردیتا ہے”۔ [بحار الأنوار، ج۹۲، ص۲۵۸]

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: “أَلَا فَمَنْ قَرَأَهَا مُعْتَقِداً لِمُوَالاةِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّيِّبِينَ مُنْقَاداً لِأَمْرِهَا مُؤْمِناً بِظَاهِرِهِمَا وَ بَاطِنِهِمَا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِكُلِّ حَرْفٍ مِنْهَا حَسَنَةً كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهَا أَفْضَلُ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا فِيهَا مِنْ أَصْنَافِ أَمْوَالِهَا وَ خَيْرَاتِهَا وَ مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى قَارِئٍ يَقْرَؤُهَا كَانَ لَهُ بِقَدْرِ مَا لِلْقَارِي فَلْيَسْتَكْثِرْ أَحَدُكُمْ مِنْ هَذَا الْخَيْرِ الْمُعَرَّضِ لَكُمْ فَإِنَّهُ غَنِيمَةٌ لَا يَذْهَبَنَّ أَوَانُهُ فَتَبْقَى قُلُوبُكُمْ فِي الْحَسْرَةِ، “جان لو جو شخص اس (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو پڑھے جبکہ محمدؐ اور آنحضرتؐ کی پاک آلؑ کی محبت کا معتقد ہو، ان کے امر کا فرمانبردار ہو، ان کے ظاہر اور باطن پر ایمان رکھتا ہو تو اللہ عزّوجلّ اسے اس کے ہر حرف کے بدلے میں ایک نیکی عطا فرمائے گا، ان میں سے ہر نیکی، دنیا اور جو کچھ دنیا میں دنیا کے مال اور خیرات کی قِسموں میں سے ہے، اس کے لئے بہتر ہے اور جو شخص اس قاری (کے پڑھنے) کو سنے جو اس (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو پڑھ رہا ہے تو اس کے لئے قاری کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا، لہذا تم میں سے ہر ایک اِس خیر میں سے جو تمہیں پیش کی گئی ہے، زیادہ فیضیاب ہو کیونکہ یہ غنیمت ہے، ایسا نہ ہو کہ اس کا وقت چلا جائے تو تمہارے دل حسرت میں باقی رہ جائیں”۔[عيون أخبار الرضا علیه السلام، ج ۱، ص۳۰۲]۔

……………..

حوالہ:
[بحار الانوار، علامہ مجلسی، طبع مؤسسةالوفاء]
[عيون أخبار الرضا علیه السلام، شیخ صدوق، ج۱، ص۳۰۲]

تبصرے
Loading...