امامت کے عظیم مقام سے لوگ بالکل ناواقف

خلاصہ: کسی شخص کو کسی مقام کے لئے منتخب کرنے کے لئے اس مقام کی پہچان ضروری ہے اور اگر پہچان نہ ہو تو منتخب کرنا فضول ہے، کیونکہ جب مقام کی پہچان نہیں تو اس مقام کےلئے لائق شخص کی بھی پہچان نہیں، اسی طرح امامت کے بلند مقام سے لوگ ناواقف ہیں تو ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو امام بنائیں، لہذا صرف اللہ تعالی کسی کو امام منصوب کرسکتا ہے۔

امامت کے عظیم مقام سے لوگ بالکل ناواقف

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:هَلْ يَعْرِفُونَ قَدْرَ الْإِمَامَةِ وَ مَحَلَّهَا مِنَ الْأُمَّةِ فَيَجُوزَ فِيهَا اخْتِيَارُهُمْ”، “کیا لوگ امامت کی قدر اور امت میں اس کے مقام کو جانتے ہیں کہ ان کا اس بارے میں انتخاب قابل قبول ہو”۔ [عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217]
انتخاب کے لئے منتخب کرنے والوں کو منتخب ہونے والے شخص کی معرفت اور پہچان ہونی چاہیے ورنہ منتخب کرنا جاہلانہ اور فضول ہوگا، اگر لوگ امام کو منتخب کرنا چاہیں تو یہ انتخاب اس بات پر موقوف ہے کہ لوگ امامت کے بلند، ملکوتی اور عرشی مقام کو پہنچانتے ہوں ، جبکہ لوگوں کی عقلیں اس عظیم اور بلند مقام کے ادراک سے عاجز ہیں اور مذکورہ فرمان میں آپؑ کا مراد یہ نہیں ہے کہ فی الحال لوگوں کی سوچ کی سطح کم ہے ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب لوگوں کی عقل بڑھ گئی تو امامت کے عظیم مقام کو پہچان لیں گے اور پھر امام کو منتخب کرسکتے ہیں، حالانکہ منصب امامت لوگوں کے فہم و ادراک سے بالاتر ہے، بلکہ مقام امامت کا تعلق اللہ تعالی کے فعل سے ہے یعنی صرف اللہ، امام کو منصوب کرسکتا ہے اور لوگوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ نیز واضح رہے کہ کیا جس اللہ نے اپنی کتاب میں اسلامی معاشرہ کی سب ضروریات بیان فرما دی ہیں اس نے اپنی کتاب میں امامت کو بیان نہیں کیا کہ لوگوں کو امام منتخب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی؟!
حوالہ
[عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، باب 20، ص 217، شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378ش]

تبصرے
Loading...