اللہ کی حمد اس کے جمال و جلال پر

خلاصہ: سورہ الحمد کی دوسری آیت “الحمدللہ ربّ العالمین” کی تفسیر کے ضمن میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ انسان کو اللہ کے سب کاموں پر اس کی حمد کرنی چاہیے۔

ضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۱۴ میں فرماتے ہیں:نَحْمَدُهُ عَلَى آلاَئِهِ، كَمَا نَحْمَدُهُ عَلَى بَلاَئِهِ”، “ہم اس کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتے ہیں، جیسے اس کے امتحان پر اس کی حمد کرتے ہیں”۔

نیز آپؑ خطبہ ۱۳۲ میں فرماتے ہیں: نَحْمَدُهُ عَلَى مَا أَخَذَ وَأَعْطَى، وَعَلَى مَا أَبْلَى وَابْتَلَى”، “ہم اس کی حمد کرتے ہیں اس پر جو اس نے لیا اور عطا کیا اور اس پر جو اس نے احسان کیا اور امتحان کیا”۔
بدھ کے دن کی دعا میں بیان ہوا ہے: “اللّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْ خَلَقْتَ فَسَوَّيْتَ وَقَدَّرْتَ وَقَضَيْتَ وَأَمَتَّ وَأَحْيَيْتَ وَأَمْرَضْتَ وَشَفَيْتَ وَ … ، “بارالہا صرف تیری حمد ہے کہ تو نے خلق کیا پھر برابر کیا اور مقدار مقرر کی اور حکم دیا اور موت دی اور زندہ کیا اور مریض کیا اور شفا دی  اور …”۔ [مفاتیح الجنان، ص۲۶]

وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں سے امتحان لینا بھی اس کی نعمتوں اور رحمتوں میں سے ہے تو اس پر بھی اللہ کی حمد کرنی چاہیے۔ اللہ کے سب کام خیر ہیں اور کیونکہ حمد خیر کام پر ہوتی ہے تو اللہ کے سب کاموں پر حمد ہے۔
۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[نہج البلاغہ، سید رضی علیہ الرحمہ]
[مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ]
[تفسیر تسنیم، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]

تبصرے
Loading...