آیتِ “مالک یوم الدّین” پر طائرانہ نظر

خلاصہ: اس مضمون میں مالک یوم الدین کے ہر لفظ کے بارے میں مختصر گفتگو کی جارہی ہے۔

       حمد کا اللہ سے مختص ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ جزا (قیامت) کے دن کا مالک ہے۔
“مالک”: مالکیت دو طرح کی ہے: حقیقی اور فرضی۔ حقیقی مالکیت جیسے انسان کی اپنے جسم کے اعضاء پر مالکیت ہے، انسان اپنے ہاتھ پاؤں، کان اور آنکھ وغیرہ کا مالک ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ کا مالک ہے یعنی ہاتھ کا مکمل اختیار انسان کے پاس ہے۔ جب چاہے اپنی آنکھ کو بند کرسکتا ہے اور جب چاہے اسے کھول سکتا ہے، لہذا مملوک (جو چیز مالک کے زیرِ ملکیت ہے) وہ اپنی طرف سے کوئی اختیار اور ارادہ نہیں رکھتی۔ اللہ کی مالککیت حقیقی ہے۔
فرضی مالکیت وہ نسبت ہے جو اسباب کے تحت انسان اور بعض چیزوں کے درمیان وجود میں آتی ہے، مثلاً اس کتاب کی کل تک آپ سے کوئی نسبت نہیں تھی، لیکن اسے خریدنے کے ذریعے وہ نسبت بدل گئی، کل تک یہ کتاب کسی اور کی تھی، لیکن آج سے یہ کتاب آپ کی ہے۔ فرضی مالکیت میں مالک اور مملوک کے درمیان ایک نسبت کا فرض کیا جاتا ہے۔
“یوم”: قرآن کریم میں “یوم” نہ دن کے معنی میں ہے جو رات کے مدمقابل ہوتا ہے اور نہ پورے دن رات کے معنی میں ہے، کیونکہ قرآن مجید میں “یوم”، “لیل” کے مدمقابل ذکر نہیں ہوا، جو “لیل” کے مدمقابل بیان ہوا ہے “نہار” ہے۔ اس آیت میں “یوم” کے بارے میں دو احتمال دیئے گئے ہیں:۱۔ دورانیہ۔ ۲۔ ظاہر ہونا۔
الدین: قرآن کریم کے ترجموں میں عموماً دین کو “جزاء” میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ “جزاء” یعنی اجر اور سزا دینا۔ روایات میں بھی یہ معنی زیادہ بتایا گیا ہے۔ مثلاً حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول روایت میں آپؑ نے “مالک یوم الدین” کی تفسیر میں فرمایا: “یوم الحساب”۔ [نورالثقلین، ج1، ص19]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
[ماخوذ از: درس تفسیر استاد حاج سید مجتبي نورمفیدي، جلسہ ۲۰، ۲۱، ۲۳]

تبصرے
Loading...