آیتِ “ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِ ۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ” کی مختصر تفسیر

خلاصہ: سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: “ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ”، “یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے” [مولانا محمد حسین نجفی کے ترجمہ کے مطابق]۔ اس مضمون میں اس آیت کی مختصر تفسیر بیان کی جارہی ہے۔

آیتِ "ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِ ۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ" کی مختصر تفسیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی جامع ترین اور مکمل ترین کتاب ہے کہ جس میں سب سابقہ آسمانی کتب کے معارف پائے جاتے ہیں اور یہ کتاب اُن سب کتب پر مہیمن (محافظ) ہے اور اس میں کسی قسم کے ریب اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ قرآن کریم محض حق ہے اور شک کا امکان وہاں ہوتا ہے جہاں حق و باطل کی ایک دوسرے میں ملاوٹ ہو اور باطل جو حق دکھائی دے رہا ہو و شک و شبہ کا باعث بن جائے۔
قرآن کریم میں منافقین اور کفار کے شک کرنے کی وجہ ان کا مریض دل ہے، جیسا کہ نابینا آدمی، اپنے اندھے پن کی وجہ سے روشن آفتاب کے بارے میں شک کرتا ہے۔
قرآن کریم، متقین کی ہدایت کا باعث ہے۔ اگرچہ قرآن کریم کی تشریعی ہدایت (نشاندہی) سب کے لئے ہے اور کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے، لیکن قرآن کریم کی تکوینی ہدایت (لے جانا) جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اور یہ ہدایت تشریعی کے بعد ہے، یہ ایسے متقین سے مختص ہے جنہوں نے اپنی فطرت کی سلامتی کو محفوظ رکھا ہے اور قرآن کریم کی تشریعی ہدایت پر عمل کیا ہے۔
جنہوں نے اپنی فطرت کو اپنے ہواوہوس اور نفسانی خواہشات میں دفن کردیا ہے وہ قرآن کریم کی تکوینی ہدایت سے محروم اور بے نصیب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، عبداللہ جوادی آملی، ج۲، سورہ بقرہ، مذکورہ آیت کے ذیل میں]

 

تبصرے
Loading...