آیتِ “الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ …” کی مختصر تفسیر

خلاصہ: سورہ بقرہ کی تیسری آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: “الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ”، “جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں”۔ [مولانا سید محمد حسین نجفی کے ترجمہ کے مطابق] اس مضمون میں اس آیت کی مختصر تفسیر بیان کی جارہی ہے۔

آیتِ "الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ..." کی مختصر تفسیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن کریم متقین کی ہدایت کرتا ہے۔ متقین وہ ہیں جو غیب (یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء حسنیٰ، وحی، ملائکہ اور آخرت) پر ایمان رکھتے ہیں۔
تقوا اختیار کرنے والے، نمازی بھی ہیں اور نماز کی حقیقت کو بھی قائم کرتے ہیں، وہ نماز کے اصلی پیغام کو لفظ و مفہوم سے بڑھ کر دیکھے جانے والے وجود کی صورت میں وقوع پذیر کرتے ہیں، یعنی وہ پہلے اپنے وجود کی حدوں میں نماز کی حقیقت کو وقوع پذیر کرتے ہیں اور پھر اپنے اس جاری رہنے والے طریقہ کار کے ذریعے اسے معاشرے میں وقوع پذیر کرتے ہیں اور لوگوں کو تبلیغ اور تعلیم دینے کے ذریعے، حقیقتِ نماز کو وقوع پذیر کرنے والے لوگوں کے طور پر ان کی بھی پرورش کرتے ہیں تا کہ نماز کی حقیقت جو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور بے صبری، گھبراہٹ اور کنجوسی کی امراض کو شفا دیتی ہے، معاشرے میں وقوع پذیر ہوجائے۔
متقین کو اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا فرمایا ہے، وہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے ذریعے پہلے اپنا رابطہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے بندوں سے رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔
انفاق کرنے والے متقین کا انفاق صرف ان کے مال میں سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہر رزق جیسے اپنا مال، علم، عقل، طاقت، مقام اور جان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں نثار اور ایثار کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، عبداللہ جوادی آملی، ج۲، سورہ بقرہ، مذکورہ آیت کے ذیل میں]

تبصرے
Loading...