آیتِ ” أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ…” کی مختصر تفسیر

خلاصہ: سورہ بقرہ کی پانچویں آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: “أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ”، “یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فوز و فلاح پانے والے ہیں”۔ [مولانا محمد حسین نجفی کے ترجمہ کے مطابق]۔ اس مضمون میں اس آیت کی مختصر تفسیر بیان کی جارہی ہے۔

آیتِ " أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ..." کی مختصر تفسیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

متقین ایسی ہدایت سے فیضیاب ہیں جو انہیں مقصد تک پہنچاتی ہے اور بلندی عطا کرتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہی تکوینی ہدایت ہے جو قرآن کریم کی ہدایت سے مکمل طور پر فائدہ حاصل کرنے کا سبب ہے۔ یہ بلند رتبے والے لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر قائم ہیں جیسے اُن کا تقوا قرآن کریم سے فیضیاب ہونے کا سبب ہے اسی طرح ان کا تقوا ان کی کامیابی کا باعث بھی ہے۔
متقین سب رکاوٹوں سے بچ کر اپنے حقیقی مقصد تک پہنچتے ہیں اور کیونکہ انسان کی کامیابی، مطلق (مکمل) کمال تک پہنچنا ہے اور مطلق کمال صرف اللہ تعالیٰ ہے، لہذا متقین کی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی ملاقات میں ہے اور لقاء اللہ تک پہنچنے کے لئے پہلے قدم، فطری ہدایت اور اعتقادی، عبادی اور مالی تقوا کے ذریعے اٹھانے چاہئیں اور پھر آخری مقصد تک پہنچنے کے لئے قرآن ناطق اور قرآن صامت (ثقلین) کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ کامیابی کی اصل بنیاد وہی تزکیہ نفس ہے جیسا کہ سورہ شمس کی دسویں آیت میں ارشاد الٰہی ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔
تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ خاص اعمال ہیں جو بعض سورہ مومنون میں ذکر ہوئے ہیں اور بعض دوسری سورتوں میں بیان ہوئے ہیں، جس طرح تزکیہ روح خاص چیزوں کو چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ہے جو کامیابی کی رکاوٹیں کہلاتی ہیں، جیسے: ظلم، بہتان، جھوٹ، آیاتِ الٰہی کو جھٹلانا اور …۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، عبداللہ جوادی آملی، ج۲، سورہ بقرہ، مذکورہ آیت کے ذیل میں]

تبصرے
Loading...