ہر انسان کا دوست اور دشمن

خلاصہ: اصول کافی کی چوتھی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کا فرمان بیان کیا جارہا ہے جو ہر شخص کے دوست اور دشمن کے بارے میں ہے۔

ہر انسان کا دوست اور دشمن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حسن ابن جہم کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے سنا کہ آپؑ فرماتے تھے: صَدِيقُ كُلِّ امْرِىًء عَقْلُهُ ، وَ عَدُوُّهُ جَهْلُهُ“، “ہر شخص کا دوست اس کی عقل ہے اور اس کا دشمن اس کی جہالت ہے”۔ [الکافی، ج۱، ص۱۰، ح۴]
اس حدیث سے متعلق چند نکات:
1۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کے وجود میں اس کا دوست رکھ دیا ہے، وہ دوست ہر انسان کی اپنی عقل ہے، اور انسان کو اس کے دشمن سے بھی ہوشیار کردیا ہے، وہ دشمن انسان کی جہالت ہے جو عقل کی راہنمائی کو نظر انداز کرنا ہے۔
2۔  عقل انسان کو گناہ، غلطی اور برائی سے منع کرتی ہے، کیونکہ عقل انسان کی دوست ہے، یہ منع کرنا دوستی کی بنیاد پر ہے۔
3۔ کسی مسئلہ اور مشکل میں انسان، دو مخالف حکم دینے والوں کی فرمانبرداری نہیں کرسکتا، اگر ایک کی فرمانبرداری کرے گا تو دوسرے سے خودبخود مخالفت ہوگی۔ جب عقل کسی بات کی ہدایت کررہی ہو تو وہاں پر اگر انسان عقل کی راہنمائی کے سامنے تسلیم ہوجائے تو اس نے درحقیقت اپنے دوست کی دوستانہ ہدایت کو قبول کرکے نقصان سے محفوظ رہتے ہوئے فائدہ حاصل کرلیا ہے۔ اور اگر عقل کی مخالفت کرے گا تو وہ خودبخود اپنی جہالت کا فرمانبردار بن گیا ہے، وہی جہالت جو اس کی دشمن ہے۔
4۔ انسان کے دوست اور دشمن کو متعارف کروا دیا گیا ہے، مگر انسان اپنی خیالی اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایسے اندھے پن کا شکار ہوجاتا ہے کہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست سمجھ لیتا ہے۔
5۔ کسی شخص کو دوست بنانے یا کسی کو دشمن سمجھنے سے پہلے، انسان کے اپنے پاس اس کا دوست اور دشمن موجود ہے۔ باہر والا دوست ہوسکتا ہے کہ راہنمائی کرنے میں غلطی کا شکار ہوجائے اور اپنے دوست کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا دے، لیکن ہر انسان کی عقل اس کی ہمیشہ تک ایسی دوست ہے جو خالص دوستی کی بنیاد پر ہدایت کرتی رہتی ہے۔
6۔ باہر والا دشمن کسی وقت بھی انسان سے صلح کرتے ہوئے دوستی اختیار کرسکتا ہے، لیکن انسان کی جہالت اس کی ایسی دشمن ہے جو کبھی اس سے صلح اور دوستی نہیں کرتی، لہذا انسان کی زندگی کی ابتدا سے انتہا تک، جہالت اس کی مکمل طور پر دشمنی کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)، مطبوعہ الاسلامیہ]

تبصرے
Loading...