قربانی کرنے کا اصل ہدف

            تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خدا ئے وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے۔

قربانی کرنے کا اصل ہدف

 

            عربی لغت میں قربانی کو ”اضحیہ“ کہتے ہیں اسی لئے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کہ جس دن کی قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی (قربانی کی عید)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو بقرعید کے روز ذبح یا نحر کرتے ہیں۔ قرآنی استعمال میں جب   قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانے ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
            بقرعید (عیدالاضحی)کے خاص موقع پر تمام مسلمانان جہان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں. قرآن مجید میں قربانی کا مقصد واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے. سورہ الحج کی آیت نمبر37میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:’’ خدا تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون … اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو‘‘(۱)
ان آیات کریمہ سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ قربانی کا  اصل مقصد کیا ہونا چاہئے؟ اور ایک مسلمان کو قربانی کس نیت سے کرنی چاہئے؟ خدا  کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص نیت  اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب وہ بندہ کو عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکو ة،حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے لہذا ہمیں ریاکاری ، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کی خاطر  اعمال صالحہ کرنے چاہئے۔
            اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ قربانی کا جانور ہر قسم کی ظاہری نمود و نمائش اور دکھاوے سے پاک ہونا چاہیے۔لیکن افسوس ! آج ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف دکھاوے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہنگا جانور خریدتے ہیں اور اوپر سے جانوروں کی منڈی میں بھی مہنگے ترین جانوروں کے لئے الگ سے وی آئی پی بلاکس بنا دئیے جاتے ہیں۔ خوب سجاوٹ اور تیز روشنیوں کے ساتھ ان مہنگے ترین جانوروں کوان وی آئی پی بلاکس میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ان کی قیمتیں لاکھوں میں ہوتی ہیں اور جو کوئی ان کو خرید کر لے جاتا ہے پھر وہ اپنے گھر کے سامنے نمائشی ٹینٹ لگا دیتا ہے تاکہ آنے جانے والا ان جانوروں کا دیدار کریں اور ان کے ذوق کی داد دیں ۔قربانی کی آڑ میں ایسے لوگوں کا مقصد صرف عزیز و اقارب ، دوستوں ،محلے داروں میں صرف اپنی دولت کی نمائش کرنا ہوتا ہے نہ کہ اللہ کی رضا کا حصول۔اب زیادہ تر لوگوں کے نزدیک قربانی کا مقصد محض ’دکھاوا‘رہ گیا ہے اور پھر گوشت کو تقسیم کرتے وقت اور اس کے حصے کرتے وقت بے انصافی سے کام لیا جاتا ہے۔ناپ تول کے بغیر ہی حصے کر دئیے جاتے ہیں اور زیادہ والا حصہ گھر کے لئے رکھ دیا جاتا ہے ، ہڈیاں وغیرہ غریبوں میں تقسیم کر کے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
            قربانی کی اصل روح اور اصل ہدف و مقصد بس یہی ہے کہ ایک مسلمان  اللہ کی محبت میں اپنی تمام خواہشات نفسانی کو قربان  کردے ۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر ربّ چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔ حضرت ابراہیم  کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں ہے  بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ  کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزاری ،جو حکم بھی خداوندعالم  کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ،مال ،ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا، ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں۔
           

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)سورہ حج آیت ۳۷۔

تبصرے
Loading...