حضرت آدم (علیہ السلام) کی زمین پر خلافت

خلاصہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت کا موضوع ملائکہ کو بیان فرمایا، جسے سورہ بقرہ کی آیت 30 میں ذکر فرمایا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِس مضمون اور اگلے مضامین میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی داستان کو قرآن اور احادیث کی روشنی میں اور عظیم مفسروں کے نظریات کے پیش نظر بیان کیا جائے گا۔
قرآن کریم کے مختلف مقامات پر حضرت آدم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا ہے۔ آٹھ مقامات پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلقت بیان ہوئی ہے، ان میں سے چار مقامات پر تفصیلی طور پر اور چارمقامات پر بالکل ہی مختصر طور پر بیان ہوا ہے۔
سب سے پہلی آیات جن میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی داستان ذکر ہوئی ہے، سورہ بقرہ کی چند آیات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت کی داستان ہے۔

سورہ بقرہ کی آیت 30 میں ارشاد الٰہی ہے: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً، “(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں”۔
اللہ تبارک و تعالٰی انسان کی خلقت سے پہلے، حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں ملائکہ کو یہ بات ارشاد فرما رہا ہے کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہ رہا ہوں، یہاں پر یہ الفاظ بہت خوبصورت ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ زمین خلیفہ کے وجود کا ظرف ہے، لیکن یہ خلیفہ صرف زمین کے لئے نہیں ہے

بلکہ خلیفہ مطلق ہے اور اس کے لئے کوئی قید ذکر نہیں ہوئی، یہ نہیں فرمایا: ارضی خلیفہ، اگر یہ فرمایا ہوتا تو مطلب یہ ہوتا کہ یہ خلیفہ صرف زمین والوں کے لئے ہے۔ لیکن کیونکہ فرمایا ہے: “فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً”، یعنی اس خلیفہ کا ظرف اور جگہ زمین ہے، لیکن خلیفہ مطلق ہے، یعنی وہ وجود کے سب جہانوں میں اللہ کا خلیفہ ہے۔

حوالہ

اقتباس از کتاب: سیرہ تربیتی پیامبرن، حضرت آدم علیہ السلام، محمد رضا عابدینی، ص63، 64۔

تبصرے
Loading...