بسم اللہ سے پہلے جس لفظ کو مدنظر رکھا جائے

خلاصہ: بسم اللہ سے پہلے کس لفظ کو مدنظر رکھا جائے، کیونکہ مطلب میں فرق آتا ہے، لہذا اس بارے میں تین نظریات کی چھان بین کی جارہی ہے

بسم اللہ سے پہلے جس لفظ کو مدنظر رکھا جائے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسم کے متعلَّق کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں: اقرا، استعین، ابدا، خبر کے طور پر یا انشاء کے طور پر، یعنی اَقرءُ کہا جائے جس کا مطلب ہے پڑھتا ہوں یا اِقراْ کہا جائے یعنی پڑھو۔
یہاں پر اثباتی لحاظ سے بھی بحث ہے اور ثبوتی لحاظ سے بھی۔اثبات یعنی موجود چیز کے بارے میں علم اور آگاہی اور ثبوت کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کا اپنے وجودی ظرف میں حقیقت کے لحاظ سے وقوع پذیر ہونا بغیر اس کے کہ اس میں کسی کے علم یا جہل کی مداخلت ہو۔
مذکورہ تین معانی کی ثبوتی لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یعنی ثبوتی لحاظ سے تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے: اللہ کے نام سے قرائت، اللہ کے نام سے مدد، اللہ کے نام سے ابتدا۔
اثباتی لحاظ سے:
پہلا نظریہ: بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ متعلَّق “اقرا” ہے، لیکن یہ نظریہ صحیح نہیں ہوسکتا، مندرجہ دلائل کی بنیاد پر:
۱۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مقروء یعنی پڑھی جانے والی چیز، بسم اللہ کے بعد ہے، مثلاً بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد جو سورہ حمد کی دیگر آیات ہیں یعنی الحمداللہ ربّ العالمین…، یہ مقروء اور پڑھی جانے والی ہیں اور خود بسم اللہ الرحمن الرحیم مقروء سے خارج ہوجائے گی، جبکہ یہ مسلّمہ حقیقت کے خلاف ہے۔
۲۔ قرائت ہمارا عمل ہے اور قرائت کا حکم قاری کو دیا گیا ہے، یہاں پر قرائت کا ہمارے ساتھ تعلق ہے نہ کہ اللہ تعالی سے اور خود یہ کلام جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے، اس کا متعلَّق کیا ہے؟
۳۔ اگر متعلَّق “اقرا” ہو تو جن سورتوں کی ابتدا میں حکم ہے، ان سے “اقرا” کا جوڑ نہیں ہے، جیسے “بسم اللہ الرحمن الرحیم.قل ھو اللہ احد”۔
لہذا مذکورہ دلائل سے اس نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے۔

دوسرا نظریہ: متعلَّق “استعین” ہے۔ یعنی استعانت اور مدد مانگتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے۔ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہوسکتا، کیونکہ “استعین” (مدد مانگتا ہوں)، مخلوق کا کام ہے نہ کہ خالق کا، لہذا اس لفظ کی اللہ سے نسبت دینا محال اور ناممکن ہے۔

تیسرا نظریہ: متعلَّق “ابدا” ہے، یعنی “ابدا بسم اللہ”، شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے۔ یہ لفظ اللہ کے لئے بھی صحیح ہے جو اس قرآن کو نازل کرنے والا ہے اور مخلوق کے لئے بھی صحیح ہے۔
 اس نظریہ کے روایات سے بھی دلائل ملتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ جب بندہ کہتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم تو اللہ عزّوجلّ فرماتا ہے:”بدأ عبدي باسمي وحقٌّ علي أن أتمم له أموره وأبارك له في أحواله”، “میرے بندے نے میرے نام سے ابتدا کی ہے اور میرے ذمہ ہے کہ میں اس کے کاموں کو اس کے لئے تمام کروں اور …”۔
دوسری روایت میں ہے: ” كل أمر ذي بال لم يبدأ فيه ببسم الله فهو أبتر”، “جس اہم کام کی اللہ کے نام سے ابتدا نہ ہو وہ کام ناقص ہے”۔ لہذا ان دونوں روایات میں اللہ کے نام سے ابتدا کرنے کی اہمیت بتائی گئی ہے۔

تبصرے
Loading...