اس مضمون میں شامل موضوعات
کیسے معلوم ھوگا کہ ہمارے پیغمبر {ص} حقیقت میں خدا کی طرف سے مبعوث ھوئے ہیں؟
انبیائے الہی کو مندرجہ ذیل تین طریقوں سے پہچانا جاسکتا ہے:
۱-معجزہ:
۲-پیغمبروں کی صفات، حالات، رفتار و کردار کا مطالعہ کرکے قرائن کو جمع کرنے کے طریقے سے اور ان کے دین کے محتوی کی تحقیق کرکے-
۳-گزشتہ پیغمبر کی بشارت، یعنی گزشتہ پیغمبر، جس کی نبوت قطعی دلائل سے ثابت ھوچکی ھو، نے اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی نبوت کی بشارت اور خبر دی ھو-
اب ہم پیغمبر اسلام {ص} کی پہچان اور آپ {ص} کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے{ جسے نبوت خاصہ کہتے ہیں} ان تین طریقوں پر بحث و تحقیق کرتے ہیں:
۱-معجزہ کا طریقہ:
الف} پیغمبر اسلام {ص} کے عارضی معجزے:
ائمہ اطہار {ع} وغیرہ سے نقل کی گئی روایتوں اور اخبار میں، پیغمبر اسلام {ص} کے متعدد معجزے بیان کئے گئے ہیں- اگر چہ ان سب روایتوں کو قطعی طور پر صحیح نہیں جانا جاسکتا ہے، لیکن ان روایتوں کی کثرت کے پیش نظر علم و یقین حاصل ھوتا ہے کہ آنحضرت {ص} کے قرآن مجید کے علاوہ بھی دوسرے معجزات تھے، جیسے: شق القمر، جمادات اور نباتات کا آپ {ص} کی اطاعت کرنا اور آپ {ص} سے گفتگو کرنا، حیوانوں کا آنحضرت {ص} کی حقانیت کی تائید کرنا اور آنحضرت {ص} کا غیب کی خبر دینا وغیرہ-
ب} قرآن مجید کا معجزہ:
اس معجزہ کی وضاحت کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال ۱۱۵، ۷۰ اور ۲۰۶۲ کے جوابات کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-
۲-پیغمبر اسلام {ص} کا امی ھونا:
۳-قرآن مجید میں اختلاف و تضاد کا نہ ھونا-
قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اور عام کتابوں کے مانند صرف ایک اجتماعی، سیاسی، فلسفی، قانونی ا تاریخی مباحث پر مشتمل نہیں ہے-
قرآن مجید، کبھی توحید، اسماء و صفات خداوند متعال اور تخلیق کے اسرار کے بارے میں بحث کرتا ہے اور کبھی احکام، قوانین اور آداب و رسوم کے بارے میں بحث کرتا ہے اور کبھی گزشتہ امتوں اور انسان کو ہلا دینے والی تقدیر کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور کبھی نصائح اور عبادات اور بندوں کے خداوند متعال سے رابطہ کے بارے میں بات اور کبھی موت اور انسان کے انجام اور تصور کائنات اور بہشت و جہنم کا ذکر کرتا ہے-
اس قسم کی کتاب ان خصوصیات کے پیش نظر فطری طور پر تضاد و تناقض اور بہت سے اتار چڑھاو سے خالی نہیں ھونی چاہئیے- اگر چہ اس کا مصنف نابغہ اور عظیم مفکر بھی ھو، کیونکہ انسان کے معلومات کمال کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پوری مدت کے دوران یکساں نہیں ھوتے ہیں- لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام ابعاد کے باوجود، اس کی تمام آیات ہم آھنگ اور ہر قسم کے تضاد و اختلاف سے پاک و منزہ ہیں، تو ہم آسانی کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب انسانی افکار کی تخلیق نہیں ہے- بلکہ خداوند متعال کی طرف سے نازل ھوئی ہے-
قرآن مجید ایک آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ھوئےصراحت کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے: «اَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْانَ وَ لَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِاللّهِ لَوَجَدُوا فيهِ اخْتِلافاً كَثيراً»؛[1] کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ھوتا تو اس میں بڑا اختلاف ھوتا- { لیکن قرآن مجید میں اختلاف نہیں پاتے ہیں، اس بناپر، یہ غیر خدا کی طرف سے نہیں ہے}
نبوت کے قرائن: [2]
الف} پیغمبر اسلام {ص} کی بعض اخلاقی خصوصیات اور آپ کی سیرت{ص} کا سابقہ:[3]
۱-امانتداری اور راست گوئی:
۲-ظلم کے خلاف مبارزہ اور مظلوم کا دفاع:
۳-بتوں اور مفاسد سے پرھیز:
ب} پیغمبر اکرم {ص} کی دعوت کا مفہوم:
پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کی حقانیت کی دلیل، آنحضرت {ص} کی دعوت کا مفہوم اور مقصد تھا، کہ ہم ذیل میں اس کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱-ہستی کی معقول تفسیر:
۲-خدا کی طرف دعوت کرنا نہ اپنی طرف:
۳-انسانوں کی مساوات:
۴-علم، جہاد اور تقوی کی برتری:
” خداوند متعال نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں اجر عظیم عطا کیا ہے”-[8]
” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہےجو زیادہ پرہیز گار ہے”-[9]
ج- لوگوں کی جہالت سے نا جائز فائدہ نہ اٹھانا:
د} حضرت محمد {ص} کے پیروں کی خصوصیات:[10]
رسول خدا {ص} کے صحابیوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ وہ شائستہ اور با صلاحیت افراد تھے، خاص کر ان میں سے بعض افراد کا سابقہ ریکارڈ درخشان تھا کہ اگر وہ پیغمبر اکرم {ص} کی حقیقت کو نہ دیکھتے تو وہ لوگ ہر گز آپ {ص} کی طرف جذب نہیں ھوتے اور انھوں نے ایسے افراد کی مخالفت کی ہے، جن کا سابقہ ریکارڈ بہت ہی خراب تھا[11]
البتہ پیغمبر {ص} کو پہچاننے کا ایک اور طریقہ آپ {ص} سے پہلے والےپیغمبر کی بشارت اور تاکید ہے، سوال کرنے والے کے تقاضا کے پیش نظر ہم اس کی وضاحت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں-
اس نکتہ کو بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ جھوٹا دعوی کرنے والے اور نئے عرفان اور مکاتب فکر کو ایجاد کرنے والے ایک ایسے سسٹم کو پیش نہیں کرسکے ہیں، جو زندگی کی حقیقتوں سے ہم آھنگ ھو اور ایک زمانہ میں، ان کی معنوی ضرورتوں کو پورا کرسکے اور اس کے ساتھ ان کی مادی ضروتوں کو بھی پورا کرسکے اور ہم آسانی کے ساتھ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ اس قسم کے مکاتب فکر کے پیرو اپنے اعتقادات اور کردار میں تعادل نہیں رکھتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے اعتقادات کے بارے می تعطل کا شکار ھوئے ہیں اور وہ بے تفاوت ھوتے ہیں اور ان میں کوئی ایسا اصول نہیں پایا جاتا ہے جو مختلف نسلوں میں مکمل طور پر یکساں صورت میں قابل استفادہ ھو دین اسلام اور بعض الہی وحی پر مبنی ادیان کا اعتقاد رکھنے والوں میں اس قسم کے نقائص کم پائے جاتے ہیں-