کیا جعده کا امام حسن{ع} سے کوئی فرزند تھا؟

کیا جعده کا امام حسن{ع} سے کوئی فرزند تھا؟

 

جَعده یا جُعده بنت اشعث بن قیس کندی (حیات: سنہ 50 ھ)، حضرت امام حسن علیہ السلام کی زوجہ تھی۔ اس نے معاویہ کے اکسانے پر امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا۔ اس سے امام حسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

منابع کے مطابق جعدہ اپنے باپ کے نیرنگ کی وجہ سے امام کی زوجیت میں آئی۔ اس نے معاویہ کی طرف سے ملنے والے مالی ہدیہ و یزید سے شادی کے وعدہ کے لالچ میں امام حسن (ع) کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ لیکن معاویہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اس نے امام کی شہادت کے بعد یعقوب بن طلحہ بن عبید اللہ سے شادی کر لی۔

جعدہ شیعوں کے دوسرے امام، امام حسن کی زوجہ تھی۔ دوسری صدی ہجری کے مورخ احمد بن یحیی بلاذری کے مطابق، وہ اپنے باپ اشعث کے نیرنگ کی وجہ سے امام حسن کی زوجیت میں آئی۔ امام علی نے اشعث سے چاہا کہ وہ امام حسن کیلئے اپنے بھائی سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران کا رشتہ طلب کرے۔ اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید کو بیٹے محمد کا رشتہ دے دیا اور حضرت علی کو امام حسن کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی۔[4] حالانکہ بعض منابع میں ذکر ہوا ہے کہ امام علی (ع) نے سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران سے امام حسن کے لئے رشتہ بذات خود طلب کیا تو سعید نے اشعث سے مشورہ کیا تو اشعث نے اسے منع کر دیا اور اس کی بیٹی کا عقد اپنے بیٹے سے کر دیا۔[5]

تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن کی جعده کی شادی کوفہ میں امام علی (ع) کی حکومت (سنہ 36۔40 ہجری) کے دوران انجام پائی۔ کیونکہ بعض روایات کے مطابق اشعث حضرت علی کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتا ہے۔[6]

مزید یہ کہ اشعث عثمان کے دور خلافت میں آذربایجان کا حاکم تھا اور جنگ جمل کے بعد اسے معزول کیا گیا اور وہ کوفہ میں آ گیا۔[7] تاریخ میں حضرت امام حسن کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو۔ شیخ مفید نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے۔[8]

حواله

 

  1. اوپر جائیں ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۸.
  2. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۷.
  3. اوپر جائیں ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالببین، ۱۳۸۵ق، ص۳۲.
  4. اوپر جائیں بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵
  5. اوپر جائیں قرشی، موسوعة سيرة أهل البيت (ع)، ۱۴۳۳ق، ج۱۱، ص۴۶۲-۴۶۳؛ ابن جوزی، اذکیاء، مکتبة الغزالی، ص۳۴.
  6. اوپر جائیں ابن جوزی، اذکیاء، مکتبة الغزالی، ص۳۴.
  7. اوپر جائیں ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۰۲ – ۵۰۴.
  8. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ج ۲، ص۲۰.
تبصرے
Loading...