کیا انسان ابدی وجود کا مالک هے؟ اگر ایسا هے تو کیوں دنیا میں همیں ابدیت دکھائی نهیں دیتی ؟

کیا انسان ابدی وجود کا مالک هے؟ اگر ایسا هے تو کیوں دنیا میں همیں ابدیت دکھائی نهیں دیتی ؟

انسان کی حقیقت ایسی کتاب هے جس کی تفسیر کی ضرورت هے اور اس کتاب کا مفسراس کے منصف یعنی پروردگار عالم کے سوا کوئی اور نهیں هو سکتا۔ کیونکه خداوند عالم هی نے اس کتاب کو ترتیب دیا اور اسی نے اس کے کلمات کو گوئائی دی هے ۔خداوند عالم نے انسان کی حقیقت کی تفسیر انبیاء ،اولیاء،اور فرشتوں کے ذریعه کردی هے اور یه بیان کرکے که انسان کهاں سےآیا ،کهاں جارهاهے ،مبدأ کیاهے ،اور کس راسته پر قدم بڑھارها هے ،انسان کو خود اپنے آپ سے آشنا کرتا هے اور اپنے پروردگار سے بھی اور اس کے ماضی ،حال اور مستقبل سے بھی آشنا کرتا هے اگر انسان ان حقیقت شرح و تفسیر خدا کے حواله نه کرے تو دوسرے اس کی اپنی طرح تفسیر کر ڈالیں ﮔﮯ اور امور انسان شناسی ﻟﮑﮭ ڈالیں گے ۔اور گذشته آسمانی کتابوں کی طرح اس میں تحریف اورتفسیر بالرأے کا شکار بنادیں گے بهت سے مخفی اسرار و حقایق کو چھپا بھی دیں گے اور بهت سی اجنبی چیزون کو اس کی ضرورت بنا کے اس پر تھوپ بھی دینگے اور اس کی واقعی اور حقیقی ضرورتوں کو ادھر ادھر کردیں گے ،یه تین بهت بڑے عیب هیں ،انسان کی تفسیر کے سلسلے میں اگر خداوند عالم اس کی تفسیر نه کرے ۔

قرآن کی رو سے انسان کی شناخت کے سلسلے میں یه نکته بهت اهمیت کا حامل هے که آیا انسان کی ابتداء اور انتهاء خاک هے اور اس کی خلقت سے پهلے اور بعد میں سوائے کھوکھلے پن ﮐﭼﮭ نهیں هے!یا هے!اور انسان طائر باغ ملکوت هے صرف ﮐﭼﮭ دنوں کے لیئے وه اس دنیامیں بدن کے قفس میں اسیر هے، یه عالم آب و گل، یه خاکی دنیا انسان کا عارضی آشیانه اور مادیت سے گذر کر ماوراء ماده یعنی عالم روحانیت تک پهنچنے کا زمینه هے؟قرآن کریم نے انسان کے لیئے یهی راه پیش کی هے اور همیں تعلیم دیا هے که انسان پهلے کهاں تھا، اس کے بعد کهاں جائے گا اور اس چند روز دنیا میں اسے کیا کرنا هے،[1] اور کس طرح انسان کی فطرت میں ابدیت رکھی گئی هے اور وه فطرتا محدودیت ،زوال اور نقص و عیب سے گریزاں هے ۔

روح ایک ملکوتی حقیقت :

انسان کی روح کا تعلق “عالم امر” سے هے (فلسفه کی اصطلاح میں ما قبل طبیعت کی عوالم کو عالم امر کها جاتا هے )اور یه اصطلاح قرآن کریم سے لی گئی هے ارشاد باری تعالی هے :الاُ لَهُ الخَلقُ وَالاَمر آگاه رهو که خلق اور امر ،خدا کے لیئے هے[2] اور اس اصطلاح میں ایک اهم نکته پوشیده هے اور وه یه که امر واحد اور جمع پر یکسان دلالت کرتا هے ۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق :وَما أمرُنا ٳلّا واحِدَۃ کَلَمح بالبَصَر، اور نهیں هے همارا امر سوائے ایک هی ؛بس پلک جھپکنے کی طرح[3] ۔اور خلق میں قدر اور ناپ پائی جاتی هے خاص کر عالم طبیعت میں که جس کی تخلیق میں اس کے علاوه کم و کیف بھی دخیل میں اور کثرت بھی حاصل هوتی هے ۔ اور جیسا که گذر چکا هے نفس ناطقه یعنی انسان کی روح ،عالم مجردات (عالم امر) کے ایک جوهر کا نام هے اس کے مقابل میں بدن عنصری عالم خلق (عالم ملک)یعنی عالم ماده و طبیعت کے ایک جوهر کو کهتے هیں ،لهذا انسان کی روح،جسم اور جسمانیت کے اوصاف جیسے رنگ،مقدار،کیفیت،شکل،طول،عرض،وعمق ۔۔۔ سے بری اور پاک هے۔[4]

روح کی اصالت اور بدن کی فرعیت:

هر انسان کی حقیقت اور اصلیت اس کی روح هے اور جسم و بدن ،روح کا اوزار هے البته یه اس بات کے منافی نهیں هے که انسان دنیا کے علاوه برزخ اور قیامت میں بھی بدن رکھتا هو، هاں !جس طرح سے که دنیا میں بھی انسان بدن رکھتا هے اور وه بدن نه اصل ،نه جزء اصل هے بلکه فرع هے تو برزخ اور قیامت میں بھی اسی طرح هے۔قرآن کریم میں بدن کی نسبت جو که فرع هے عالم طبیعت و ماده و خاک اور مٹی سے دی گئی هے ؛اور روح کی نسبت جو که فرع هے خداوند عالم کی جانب دی گئی هے، ارشاد هورهاهے:[5] قُل الرُُّوحُ مِن اَمرِرَبّی۔ کهه دو که روح میرے پروردگار کے امر میں سے هے ۔[6]

کمال خلقت روح:

خداوند عالم نےانسان کو بطور کامل خلق کیا هے ۔ ممکن هے که انسان بدن کے اعتبار سے ناقص هو (اگر چه یه نقص اتنا بھی اهم نهیں هے کیونکه اس مقدار میں جتنا که بدن ناقص هے شرعی فرائض بھی کم هوتے جاتے هیں ) لیکن خداوند عالم نے کسی روح کو ناقص خلق نهیں کیا هے اس لیئے ارشاد هوتا هے : وَنَفسٍ وَما سَوّ ئھا قسم هے نفس کی اور اس کی جس نے اسے کامل بنایا؛[7] پھر ارشاد هوتا هے که روح کی خلقت کے کمال کا رازیه هے که اسے فجور وتقوی،برے اور اچھے راستوں کا علم دے دیا کیونکه روح نه بدن هے نه شکل و صورت که اس کی خلقت کا کامل هونا یا نه هونا آنکھوں سے محسوس هوسکے بلکه خلقت کا کمال اسی چیز سے هے جوروح کی قسم سے هو یعنی امر مجرد هو ، اس لیئے فرمایا :فَالهَمَها فُجورَھا و تَقواھا۔پھر اس کے خیر و شر کا علم اسے دے دیا،[8] یعنی خیر و شر کا الهام روح کی خلقت کا کمال هے۔[9]

تجرد روح:

خلقتیں یا جسم رکھتی هے یاماده هیں ؛ یا بغیر جسم کی مجرد هیں،اور تمام جسمانی اور مجرد خلقتوں کے اپنے لیئے خاص اوصاف اور صفات پائے جاتے هیں مثال کے طور پر اجسام میں شکل و صورت و وزن و رنگ و حجم وغیره پایےجاتےهیں لیکن مجردات میں نه زمان هے نه مکان ،نه شکل، نه وزن ،نه رنگ، نه حجم نه اس قسم کی کوئی چیز پائی جاتی هے ۔اور چونکه جسمانیات اور مجردات میں کوئی اور واسطه نهیں هے لهذا اگر ثابت هو جائے که کوئی وجود جسمانی نهیں هے اور اس میں جسم کے اوصاف نهیں پائے جاتے هیں تو لا محاله وه غیر جسمانی اور مجرد هو گا ، یا اس کے برعکس ۔ فلاسفه روح کے مجرد هونے کے جو دلائل پیش کرتے هیں ان میں سے صرف ایک دلیل مختصر طور سے هم پیش کرتے هیں اور وه یه که انسان کا بدن زمانه کے ساﺘﻬ ساﺘﻬ ڈھل کر ضعیف هوتا جاتا هے لیکن انسان کی روح اور نفس ناطقه زمانه کے ساﺘﻬ ساﺘﻬ قوی هوتی جاتی هے ۔

انسان جب بوڑھا هوجاتا هے تو اس کا بدن ضعیف اور ناتوان هوجاتا هے اور جتنا وه بوڑھا هوتا جاتاهے اتنا اس کا بدن ڈھلتا جاتاهے لیکن اس کے برخلاف اس کی فکر اور نظریات پخته هوتے جاتے هیں،اس کے بیان اور قلم میں مزید وزن پیدا هو جاتا هے ۔ اس کا مطلب یه هے که انسان کی روح اور نفس ناطقه زمانه کے ساﺘﻬ ساﺘﻬ قوی اور مضبوط هوتی جاتی هے،جبکه بدن زمانه کے همراه ڈھلتا جاتا هے،[10] اس کا مطلب روح میں جسمانی صفات نهیںپائے جاتے لهذا اس کا مجرد هونا لازمی هے ۔

انسان اور ابدیّت:

اگر لوگ عالم طبیعت اور ماده سے اتنے مانوس هیں تو اس کی وجه یه هے که وه حسی طور سے

فکر رکھتے هیں کیونکه حسی قوتیں عالم طبیعت اور محسوسات سے زیاده نزدیک هیں اور عقل ،عقلی قوتیں ،عالم معقولات ،عالم طبیعت اور محسوسات سے دور هیں لهذا محسوسات اور مادی امور حسا س

کے انسانوں کو مجذوب کر لیتی هیں اور وه اس کے آگے نهیں سونچ پاتے ۔ لیکن عاقل اور هوشمند انسان کیونکه فانی دنیا کی حقیقت سے واقف هے لهذا دنیا کے فریب میں نه آکر اس سے دل نهیں لگاتا۔ کیونکه انسان کی فطرت کو ابدیّت کی تلاش هے ۔ مرحوم صدر المتألهین کے قول کے مطابق :خداوند عالم نے انسان کو جبلّت اور فطرت میں وجود اور بقا کی محبت ؛اور عدم و فنا سے کراهت رﮐﮭ دی هے[11]  لهذا فانی چیزیں اسے سیر نهیں کر سکتیں اور اگر وه عالم طبیعت اور ماده سے دل لگالیتا هے تو یا اس لیئے هر که مطابقت میں خطا کے سبب وه عالم ماده کو هی ابدی ﺴﻤﺠﮭ بیٹھا هے یا موت کے بعد کی ابدیّت کو بھلا بیٹھا هے،یا جهل مرکّب (دوهری جهالت ) کا شکار هوگیا هے یا پھر غفلت کا مارا هے ۔قرآن مجیدکی صریحی آیتوں کے مطابق هر انسان کو لازمی موت آنی هے،[12] اس کا مطلب دنیا میں بقا کا احتمال فضول هے۔

خداوند عالم انسان کو یهی تعلیم دینا چاهتا هے که اے انسان تیری ھستی ابدی اور همیشه باقی هے اور بقا و ابدیت اس فانی دنیا میں نهیں سما سکتی ،بقا کی طلب هے تو همارے پاس هے۔قرآن کریم میں ارشاد هورها هے:[13] جو ﮐﭽﮭ تمهارے پاس هے ختم هوجانے والاهے اور وه جو خدا کے پاس هے همیشه باقی رهنے والا

اور ابدی هے ۔اے انسان !تو ابدی هے لهذا اپنی ابدیت کو کھونه دے ، متاع ابدی خدا کے سوا کسی کے پاس نهیں۔اگر آبِ حیات کی طلب هے تووه صرف خدا کے پاس هے ۔[14]

 

حواله

[1] جوادی آملی عبد الله ِتفسیر موضوعی قرآن کریم، صورت و سیرت انسان در قرآن ص۳۵و۳۸.

[2] سوره اعراف آیه۵۴.

[3] سوره قمر آیه۵۰.

[4] حسن زاده آملی حسن ، نصوص الحکم بر نصوص الحکم ۔فص ۳۱ ص ۱۷۹.

[5] سوره اسراء آیه ۸۵.

[6] جوادی آملی عبد الله ،زن در آئینه جلال و جمال،ص ۶۸.

[7] سوره شمس آیه ۷.

[8] سوره شمس آیه ۸.

[9] جوادی آملی عبد الله ،کرامت در قرآن ۔ص ۳۳.

[10] حسن زاده آملی حسن ،معرفت نفس، دفتر دوم ص ۱۷۶.

[11] صدر المتالھین شیرازی محمد ابراھیم ۔اسفار اربع۔ ج۴ ص۱۶۳(چاپ سنگی).

[12] سوره آل عنران آیه ۱۸۵.

[13] سوره نحل آیه ۹۶.

[14] جوادی آملی عبدالله ،کرامت در قرآن۔ ص ۱۱۶.

تبصرے
Loading...