مسلمانوں نے ایران کو فتح کرتے وقت ، ایرانیوں کو آزاد طور پر دین کو منتخب کرنے کی کیوں اجازت نهیں دی؟

مسلمانوں نے ایران کو فتح کرتے وقت ، ایرانیوں کو آزاد طور پر دین کو منتخب کرنے کی کیوں اجازت نهیں دی؟

اجمالی جواب:

آپ کے سوال کے بارے میں پهلے دو نکتے بیان کیے جانے چاهئیے:

۱۔ پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد فتوحات کے دوران جو واقعات رونما هوئے، ان کی سو فیصدی اور مکمل طور پر تائید نهیں کی جا سکتی هے، کیونکه شیعوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبراکرم {ص} کے برحق خلیفه امام علی{ع} تھے، اگرچه وه ایسے حالات میں قابل قدر راهنمائی فرماتے تھے، لیکن بهرحال فیصله کرنے کا اختیار دوسروں کے هاتھه میں تھا-

۲۔ اس کے باوجود، آپ نے کوئی مستند دلیل پیش نهیں کی هے، جس سے ثابت هو جائے که مسلمانوں نے، ایرانیوں کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور کیا هے، آپ نے صرف اس مطلب کو قطعی سمجھه کر اس کی دلیل طلب کی هے-

مسلمانوں کے توسط سے ایران کو فتح کرنے کے زمانه میں ایران کے حالات بیان کرنے کے لیے کافی هے که اس زمانه کے حالات کی دقت کے ساتھه تحقیق کی جائے- یه فتوحات اس وقت انجام پائے هیں که ساسانی شهنشائیت اندرونی خلفشار،کشمکش اور لوگوں کی طرف سے اعتراضات سے دوچار تھی-

اس سلسله کا آخری بادشاه ، یزدگرد سوم ایک ناتجربه کار نوجوان تھا، جس کی بے تجربی کی وجه سے ایران کمزور هو چکا تھا اور اسی وجه سے ایران کے دشمن هر طرف سے[1] اس پر حمله کرنے لگے تھے[2]

ایرانیوں کے حمله کے وقت ایران کا دارالخلافه تیسفون {موجوده عراق کے مداین} میں تھا، یزدگرد سوم ، ابتداء میں شهر ری بھاگ گیا، لیکن ا س کے اپنے گورنر نے اسے شهر ری میں پناه دینے سے انکار کیا، اس کے بعد وه اصفهان چلا گیا، لیکن وهاں پر بھی اپنے آپ کو محفوظ نه سمجھه کر کرمان چلا گیا، ایک مختصر مدت تک کرمان میں ٹھرنے کے بعد شهر مرو کی طرف بھاگ گیا اور اس شهر سے دو فرسخ کی دوری پر ایک آتش کده تعمیر کیا اور وهاں پر ایک جانب سے اپنے گورنروں سے رابطه میں تھا اور دوسری جانب سے، دنیا کے دوسرے ممالک کے بادشاهوں، جیسے: چین سے مدد طلب کرتا تھا- اس نے ایک وقت چین میں پناه لینے کا اراده کیا، که اس کے اس فیصله کی ایران کے بزرگوں نے شدید مخالفت کی، انهوں نے بادشاه کی ملامت کی اور یوں استدلال کیا که اگر هم دیندار مسلمانوں سے، صلح کریں، جو اپنے عهد وپیمان کے وفادار هوتے هیں، اور اپنے هی ملک میں رهیں، تو اس سے بهتر هوگا که هم ایک ایسے ملک میں پناه لیں که نه دیندار هیں اور نه معلوم هے که وه اپنے عهد وپیمان پرباقی بھی رهیں- یه کشمکش اور بحث ایرانیوں اور ان کے بادشاه کے درمیان جاری تھی، یهاں تک که یزدگردسوم ، مرو میں ایک چکی والے کے هاتھوں قتل هوا[3] اور اس طرح ساسانیوں کی بادشاهی کا سلسله ختم هوا، مسلمانوں نے ایران میں اقتدار پر قبضه کیا- اقتدار پر قبضه کرنے اور حکومت بدلنے کا یه کام تقریباً کسی وسیع پیمانه پر خون ریزی کے بغیر اور مقامی حکومت کے ساتھه قراردادوں کے نتیجه میں انجام پایا[4]– اس کے بعد یه ایرانی تھے ، جنهوں نے شوق سے اسلام کے پھیلنے میں اهم رول ادا کیا-

ایرانیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نه کرنے کی دلائل میں سے ایک دلیل یه هے که مسلمانوں کے سب سے اهم دانشور ایرانی تھے-

شیعوں کی اکثر معتبر ترین کتابوں، یعنی کتب اربعه {چار کتابوں} کے مئولف،شیخ صدوق {شهر ری سے}، شیخ کلینی {شهر ری کے اطراف کے گاوں سے} اور شیخ طوسی {طوس خراسان سے} یعنی ایرانی تھے-

اهل سنت کی سب سے اهم کتابوں، یعنی صحاح سته {چھه کتابوں} کے مولفین حسب ذیل هیں: امام بخاری {بخارا سے}، امام مسلم {نیشا پور سے} ، ترمزی {ترمذ سے}، نسائی {نساء سے}، ابن ماجه {قزوین سے} اور ابو داود {سیستان سے} تھے، یعنی یه سب مولفین ان علاقوں سے تعلق رکھتے هیں جو اس زمانے میں جغرافیائی لحاظ سے ایران کا حصه تھے-

دوسری کتابوں پر نظر ڈالنے سے معلوم هوتا هے که ایرانی دانشوروں کا علم و ادب پرکس قدر اثر و رسوخ تھا-

ایرانیوں کی طرف سے پهلے سے هی اسلام کی طرف رجحان کی ایک اور دلیل یه هے که ایران پر مغلوں کے حملوں کے بعد، جو شاید بے رحمانه ترین اور خونین ترین حملے تھے، جو همارے ملک میں انجام پائے اور جن حملوں کے نتیجه میں اسلامی ایران کے بهت سے ثقافتی اثاثے نابود هوئے، ایرانیوں نے نه صرف مغلوں کے دین ومذهب کی طرف تمائل نهیں دکھایا بلکه زمانه گزرنے کے ساتھه ساتھه ، مغلوں نے هی ایران کے مسلمان دانشوروں کی هم نشینی کے نتیجه میں دین اسلام قبول کیا اور عظیم اسلامی معاشره میں جذب هوئے-

اس سے جو نتیجه لیا جا سکتا هے، وه یه هے که ایران جیسے وسیع معاشره کو جبراً نیا دین قبول کروانا ممکن نهیں تھا، کیونکه ایران کا تمدن دنیا کے قدیمی ترین تمدنوں میں شمار هوتا هے اور اگر ایران کے لوگوں نے دین اسلام کو جبراً قبول کیا هوتا،تو انهیں اسلامی حکومت میں معمولی سا نقص دیکھنے پر اس کے خلاف بغاوت کرنی چاهئیے تھی، جبکه هم دیکھتے هیں که ، جو تحریکیں غیر اسلامی نعروں کے سهارے بغاوت پر اتر آئی تھیں، ان کا ایرانیوں نے استقبال نهیں کیا هے، بلکه برعکس جو تحریکیں عدل و انصاف کے لیے علویوں کی طرف سے شروع هوئیں اور اسلامی قدروں پر تاکید کرتی تھیں، ایرانی معاشره نے ان کی حمایت کی هے اور جس طرح آپ مشاهده کر رهے هیں، اس وقت اکثر ایرانیوں کا مذهب، اهل بیت{ع} کی پیروی هے، جبکه ابتداء میں اکثر مسلمان جنگجو، جو فاتح بنے، اس مسلک پرنهیںتھے بلکه خلفائے وقت کے پیرو تھے، اور یه ایک دوسری دلیل هے که اسلام ایرانیوں کے دلوں میں جبراً داخل نهیں هوا هے، کیونکه شیعوں کے پاس حکومت نهیں تھی که اس قسم کا جبر کرتے اور بنیادی طور پر کسی بھی دین کو دل سے قبول کرنے میں جبر کرنا ممکن نهیں هے، جیسا که هم عصر حاضر میں اس کا مشاهده کر رهے هیں که سابقه سوویت یونین میں دسیون سال تک جبرواکراه، ظلم و ستم اور اشتراکی پروپگنڈے کے باوجود اس علاقه کے مسلمانوں نے زبردست مشکلات برداشت کر کے اپنی اسلامی هویت کو محفوظ رکھا هے اور یه امر اس علاقه کے عیسائیوں پر بھی صادق آتا هے-   

حواله

[1] -دشمن هر طرف سے ، نه صرف جنوب و مغربی علاقه سے مسلمان اعراب هی {غور فرمائئیے}

[2] -طبری، ابن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج 1، ص 632، مؤسسه الاعلمی، بیروت.

[3] -ایضاً، ج 3، ص 244- 249 (با تلخیص) .

[4] – قادسیه اورنهاوند کی فوج کے مانند-

تبصرے
Loading...