صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟

صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟

خداوندعالم کی صفات کو معمولاً دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

صفاتِ ذات“ اور ”صفات ِفعل“۔

اس کے بعد صفات ذات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے :”صفاتِ جمال“ اور ”صفاتِ جلال“۔

صفات جمال“ سے وہ صفات مراد ہیں جو خداوندعالم کے لئے ثابت ہیں جیسے علم، قدرت، ازلیت، ابدیت، لہٰذا ان صفات کو ”صفات ثبوتیہ“ کہا جاتا ہے، اور ”صفات جلال“ سے مراد وہ صفات ہیں جو خدا میں نہیں پائی جاتیں، جیسے جہل، عجز، جسم وغیرہ لہٰذا ان صفات کو ”صفات سلبیہ“ کہا جاتا ہے، اور یہ دونوں صفات خداوندعالم کی”صفات ذات“ ہیں، اور اس کے افعال سے قطع نظر قابل درک ہیں۔

صفات فعل “ سے مراد وہ صفات ہیں جو خداوندعالم کے افعال سے متعلق ہوتی ہیں، یعنی جب تک خداوندعالم اس فعل کو انجام نہ دے تو اس صفت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا، جب وہ فعل انجام دیتا ہے تو اس صفت سے متصف ہوتا ہے جیسے ”خالق“، ”رازق“اور”محی“، ”ممیت“ (یعنی خلق کرنے والا، روزی دینے والا، زندہ کرنے والا اور موت دینے والا)

ہم ایک بار پھر اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خداوندعالم کی ”صفات ذات“ اور ”صفات فعل “ لامحدود ہیں، کیونکہ نہ اس کے کمالات ختم ہونے والے ہیں اور نہ اس کے افعال و مصنوعات، لیکن پھر بھی ان میں سے بعض صفات دوسری صفات کی اصل اور سرچشمہ شمار ہوتی ہیں، نیز وہ ان کی شاخیں شمار کی جاتی ہیں، لہٰذا اس نکتہ کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خداوندعالم کی درج ذیل پانچ صفات خداوندعالم کی ذات اقدس کے تمام اسما و صفات کے لئے اصل و سرچشمہ ہیں اور باقی ان کی شاخیں ہیں:

وحدانیت، علم، قدرت، ازلیت اور ابدیت۔(1)

 (1) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۵۹

 

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ارادہ جن معنی میں انسان کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ان معنی میں خداوندعالم کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔

کیونکہ انسان پہلے کسی چیز کا تصور کرتا ہے، (مثلاً پانی پینا) پھر اس کے فوائد کے بارے میں سوچتا ہے، اور اس کے فائدہ کی تصدیق کے بعد اس کام کو انجام دینے کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور جس وقت انسان کا شوق آخری درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اعضا کے لئے حکم صادر ہوتا ہے اور انسان اس کام کو شروع کردیتا ہے۔(1)

لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں ( تصور، تصدیق، شوق، حکم ،نفس اور اعضا کی حرکت) خداوندعالم کے سلسلہ میں بے معنی ہیں، کیونکہ یہ تمام چیزیں حادث ہیں ، پس خدا کے ارادہ کا کیا مفہومہے؟۔

اس سلسلہ میں علم عقائد اور اسلامی علماو فلاسفہ نے ایک ایسا مفہوم بیان کیا ہے کہ ”بسیط“ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی و تغیر نہیں ہوتا۔

                                 

(1)  بعض فلاسفہ، ارادہ کو وہی ”شوقِ موٴکد “ کا نام دیتے ہیں

جبکہ بعض دوسرے فلاسفہ ”شوق موٴکد “ کے علاوہ نفس کے ایک فعل اور حرکت کے بھی قائل ہیں، اور ارادہ کو وہی انسانی فعل شمار کرتے ہیں، (غور کیجئے)

ان حضرات کا کہنا ہے کہ خداوند عالم کا ارادہ دوطرح کا ہوتا ہے:

          ۱۔ ذاتی ارادہ ۔

          ۲۔ فعلی ارادہ ۔

۱۔ ”ذاتی ارادہ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا و مافیہا کے بہترین نظام اور نظام خلقت کا علم رکھتا ہے اور احکام شرعی میں بندوں کے خیر و صلاح کا علم رکھتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا بہترین نظام کیا ہے، اور کس علاقہ میں کیا چیز پیدا ہونی چاہئے، یہی ”علم“ مختلف زمانوں میں موجودات اور حوادث کے پیدا ہونے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔

اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ قوانین و احکام کے لحاظ سے کس چیز میں بندوں کی مصلحت ہے؟ اور ان قوانین و احکام کی روح اس کا یہی علم ہے جو مصالح و مفاسد کے بارے میں ہے۔(غور کیجئے)

۲۔ خداوندعالم کا فعلی ارادہ”عین ایجاد“ ہے اور صفات فعل کا جز شمار ہوتا ہے، اس بنا پر زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں اس کا ارادہ ”عین ایجاد“ ہے، نماز کے واجب ہونے اور جھوٹ کے حرام ہونے پر ارادہ ،عین وجوب و حرام ہے، (یعنی اس نے نماز کے واجب کرنے کا ارادہ کیا وہ واجب ہوگئی)

خلاصہ یہ کہ خدا وندعالم کا ذاتی ارادہ اس کا ”عین علم“ اور ”عین ذات“ ہے ، اور خدا وندعالم کا فعلی ارادہ اس کام کا ”عین ایجاد“ ہے۔(1)

                                    

(1) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۱۵۳

 

اسم اعظم کے سلسلہ میں مختلف روایات بیان کی گئی ہیں

جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص بھی اسم اعظم سے باخبر ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے بلکہ وہ شخص اس اسم اعظم کے ذریعہ اس دنیا کی بہت سی چیزوں میں دخل و تصرف کرسکتا ہے اور بہت سے عجیب و غریب کام انجام دے سکتا ہے۔

خدا کے ناموں میں سے کونسا نام ”اسم اعظم“ ہے ؟اس سلسلہ میں علمائے اسلام نے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ہے، اور اس موضوع پر اکثر بحثیں  ہوا کرتی ہیں کہ خدا کے ناموں میں اس اسم کو تلاش کریں جو عجیب و غریب خاصیت رکھتا ہو۔

لیکن ہمارے نظریہ کے مطابق جس چیز پر زیادہ توجہ ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ خدا کے اسما اور صفات کا پتہ لگائیں ان کے مفہوم کو اپنے اندر پیدا کریں اور روحانی تکامل و پیشرفت حاصل کریں جن کے ذریعہ ہماری ذات پر اثر ہوسکے۔

دوسرے الفاظ میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر ان صفات کو پیدا کریں اور اپنے کر دار کو ان صفات سے مزین کریں، ورنہ  گناہوں میں آلودہ شخص اور ایک ذلیل انسان کیا ”اسم اعظم“ کا علم حاصل کرنے سے ”مستجاب الدعوة“ ہوسکتا ہے؟!

اگر ہم سنتے ہیں کہ ”بلعم“ نامی شخص اسم اعظم کا علم رکھتا تھا لیکن بعد میں اس سے ہاتھ دھوبیٹھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایمان و عمل صالح اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعہ اس روحانی درجہ کو حاصل کرلیا تھا لہٰذا اس کی دعا قبول ہوجاتی تھی، لیکن اپنی خطاؤں کے ذریعہ (کیونکہ انسان خطا و غلطی سے پاک نہیں ہے) اور اپنے زمانہ کے فرعونی اور طاغوتی طاقتوں اور اپنی ہوا وہوس کی بنا پر اس روحانی طاقت کو بالکل کھو دیا ، اور اس مرتبہ سے گرگیا، اسم اعظم کے بھول جانے سے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں۔

اور اسی طرح اگر ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اسم اعظم سے آگاہ تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے وجود میں خدا کے اسم اعظم کی حقیقت جلوہ گر ہوتی تھی، اور اسی وجہ سے خدا وندعالم نے ان کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کیا تھا (کہ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں)(1)

 (1) تفسیر نمونہ ، جلد ۷ ،صفحہ ۳۰

 

عقلی دلائل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ

خداوندعالم کو ہرگز آنکھوں کے ذریعہ نہیں دےکھاجا سکتا، کیونکہ آنکھ تو کسی چیز کے جسم یا صحیح الفاظ میں چیزوں کی کیفیتوں کو دیکھ سکتی ہیں، اور جس چیز کا کوئی جسم نہ ہو بلکہ اس میں جسم کی کوئی کیفیت بھی نہ ہو تو اس چیز کو آنکھ کے ذریعہ نہیں دیکھا جاسکتا، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ آنکھ اس چیز کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں مکان، جہت اور مادہ ہو ، حالانکہ خداوندعالم ان تمام چیزوں سے پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وجود لامحدود ہے اسی وجہ سے وہ ہمارے اس مادی جہان سے بالاتر ہے، کیونکہ مادی جہان میں سب چیزیں محدود ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات ،منجملہ بنی اسرائیل سے متعلق آیات جن میں خداوندعالم کے دیدار کی درخواست کی گئی ہے، ان میں مکمل وضاحت کے ساتھ خداوندعالم کے دید ار کے امکان کی نفی کی گئی ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے اہل سنت علمایہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر خداوندعالم اس دنیا میں نہیں دکھائی دے سکتا تو روز قیامت ضرور دکھائی دے گا!! جیسا کہ مشہور و معروف اہل سنت عالم، صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں:”ھَذا مَذْھبُ اٴہل السُّنة والعِلم بالحدیثِ“ (یہ عقیدہ اہل سنت اور علمائے اہل حدیث کا ہے) (1)

                           

(1) تفسیر المنار ، جلد ۷، صفحہ ۶۵۳

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ عصر حا ضر کے علمائے اہل سنت جو اپنے کو روشن فکر بھی سمجھتے ہیں وہ بھی اسی عقیدہ کا اظہارکرتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس سلسلہ میں بہت زیادہ ہٹ دھرمی کرتے ہیں!

حالانکہ اس عقیدہ کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث و گفتگو کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں (جسمانی معاد کے پیش نظر) دنیا و آخرت میں کوئی فرق نہیں ہے ، کیو نکہ جب خداوندعالم کی ذات اقدس مادی نہیں ہے وہ مادہ سے پاک و منزہ ہے، تو کیا وہ روز قیامت ایک مادی وجود میں تبدیل ہوجائے گا، اور اپنی لامحدود ذات سے محدود بن جائے گا، کیا اس دن خدا جسم یا عوارض جسم میں تبدیل ہوجائے گا؟ کیا خداوندعالم کے عدم دیدار کے عقلی دلائل دنیا و آخرت میں کوئی فرق کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں، کیونکہ عقلی حکم کوئی استثنا نہیں ہوتا ۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ غلط توجیہ کرنا کہ

ممکن ہے انسان کو روز قیامت دوسری آنکھیں مل جائیں یا انسان کو ایک دوسرا ادراک مل جائے جس سے وہ خداوندعالم کا دیدار کرسکے، تو یہ بالکل بے بنیاد ہیں، کیونکہ اگر اس دید اور آنکھ سے یہی عقلانی اور فکری دید مراد ہے تو یہ تو اس دنیا میں بھی موجود ہے اور ہم اپنے دل اور عقل کی آنکھوں سے خدا کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اگر اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو اس طرح کی چیز خداوندعالم کے بارے میں محال اور ناممکن ہے، چاہے وہ اس دنیا سے متعلق ہو یا اُس دنیا سے،لہٰذا کسی کا یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں خدا کو نہیں دیکھ سکتا مگر مومنین روز قیامت خداوندعالم کا دیدار کریں گے، یہ بات غیر منطقی اور ناقابل قبول ہے۔

یہ لوگ اپنی معتبر کتابوں میں موجود بعض احادیث کی بنا پر اس عقیدہ کا دفاع کرتے ہیں جن احادیث میں روز قیامت خدا کے دیدار کی بات کہی گئی ہے،لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان روایات کے باطل ہونے کو عقل کے ذریعہ پرکھیں اور ان روایات کو جعلی اور جن کتابوں میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں ان کو بے بنیاد مانیں، مگر یہ کہ ان روایات کو دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کے معنی میں تفسیر کریں، کیا یہ صحیح ہے کہ اس طرح کی روایات کی بناپر اپنی عقل کو الوداع کہہ دیں ، اور اگر قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں جن کے ذریعہ پہلی نظر میں دیدار خدا کا مسئلہ سمجھ میں اتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ  # إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَةٌ >(1)

اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے۔اپنے پروردگار( کی نعمتوں) پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے“۔

مذکورہ آیت درج ذیل آیت کی طرح ہے:

یَدُ اللهِ فَوْقَ اٴَیْدِیہِمْ>(۲)

اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے“۔

جس میں کنایةً قدرت پروردگار کی بات کی گئی ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی کوئی بھی آیت اپنے حکم کے برخلاف حکم نہیں دے گی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں اس باطل عقیدہ کی شدت سے نفی اور مخالفت کی گئی ہے، اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں پر مختلف انداز میں تنقید کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی جناب ہشام کہتے ہیں:

میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھاکہ امام علیہ السلام کے ایک دوسرے صحابی معاویہ بن وہب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے فرزند رسول! آپ اس روایت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت رسول خدا  (ص) نے خدا کا

                                  

(1)  سورہٴ قیامت ، آیت۲۳ ۔۲۴                )۲(سورہٴ فتح ،آیت۱۰

دیدارکیا ہے؟

(اے فرزند رسول آپ بتائیے کہ ) آنحضرت  (ص) نے کس طرح خدا کو دیکھا ہے؟ اور اسی طرح آنحضرت  (ص) سے منقول روایت جس میں بیان ہوا ہے کہ مومنین جنت میں خدا کا دیدار کریں گے، تو یہ دیدار کس طرح ہوگا؟!

اس موقع پر امام صادق علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا: اے معاویہ بن وہب! کتنی بری بات ہے کہ انسان ۷۰ ، ۸۰ سال کی عمر پائے ، خدا کے ملک میں زندگی گزارے اس کی نعمتوں سے فیضیاب ہو، لیکن اس کو صحیح طریقہ سے نہ پہچان سکے، اے معاویہ! پیغمبر اکرم  (ص) نے ان آنکھوں سے خدا کا دیدار نہیں کیا ہے، دیدار اور مشاہدہ کی دو قسمیں ہوتی ہیں: دل کی آنکھوں سے دیدار ، اور سر کی آنکھوں سے دیدار، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس نے دل کی آنکھوں سے خدا کا دیدار کیا ہے تو صحیح ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ ان ظاہری آنکھوں سے خدا کا دیدار کیا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا اور اس کی آیات کاانکار کرتا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم  (ص) نے فرمایا: جو شخص خداوندعالم کو مخلوق کی شبیہ اور مانند قرار دے تو وہ کافر ہے۔(1)

 اسی طرح ایک دوسری روایت جو ”کتاب توحید “شیخ صدوقۺ میں اسماعیل بن فضل سے نقل ہوئی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا روز قیامت خداوندعالم کا دیدار ہوسکتا ہے؟  تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم اس چیز سے پاک و پاکیزہ ہے اور بہت ہی پاک و پاکیزہ ہے:

․․․ إنَّ الاٴَبصَار لا تُدرک إلاَّ ما لَہ لون والکیفیة والله خالق الاٴلوان والکیفیات“(۲)

                                

(1)  معانی الاخبار بنا بر نقل تفسیر المیزان ، جلد ۸، صفحہ ۲۶۸

() نور الثقلین ، جلد اول، صفحہ ۷۵۳

آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جن میں رنگ اور کیفیت ہو جبکہ خداوندعالم رنگ اور کیفیت کا خالق ہے“۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ ”لَون“ (یعنی رنگ) پر خاص توجہ دی گئی ہے اور آج کل ہم پر یہ بات واضح و روشن ہے کہ ہم خود جسم کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ کسی چیز کے جسم کا رنگ دیکھا جاتا ہے، اور اگر کسی جسم کا کوئی رنگ نہ ہو تو وہ ہرگز دکھائی نہیں دے سکتا۔(1)

تبصرے
Loading...