دلچسپ مناظرہ

دلچسپ مناظرہ

لچسپ مناظرہ
مرحوم آیت اللہ علامہ عبدالحسین امینی “صاحب الغدیر” کا ایک نہایت دلچسپ مناظرہتہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں. علامہ نے میری دعوت قبول کرلی. میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا. رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جاسکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے. علامہ امینی نے فرمایا:«میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا. اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی. وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی… ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا. میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں. بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار؛ غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں. کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے»؟انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے.میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یھی حدیث کافی ہے. قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی…تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں؟کہنے لگے: “انہا مطہرة بنص الکتاب”. نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (ص) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں.میں نے کہا: “حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے؟ یا پھر معاذاللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر جاہلیت کی موت مریں!؟حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی… اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی. جبکہ آپ (ص) کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نی دی ہے.حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں…ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: «شیخنا اسکت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا”».ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا.یہ حکایت صرف اس لئے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث (من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة) کو قبول کرتے ہیں. اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کررہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہئے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
 

http://shiastudies.com/ur/1089/%d8%af%d9%84%da%86%d8%b3%d9%be-%d9%85%d9%86%d8%a7%d8%b8%d8%b1%db%81/

تبصرے
Loading...