نیوٹن کا قانون اور یوم آزادی

نیوٹن کا قانون اور یوم آزادی

 عارف بلتستانی

آخری کلاس تھی۔ پروفیسر نیوٹن کے پہلے قانون پر تبصرہ کر رہے تھے، کہ اچانک ایمرجنسی گھنٹی بج گئی؟

حیرانگی میں سب ایک دوسرے کے منہ تکنے لگے۔ پروفیسر سمیت ہم سب باہر گراؤنڈ میں گئے۔ ایسے میں باقی کلاسز کے اسٹوڈنٹس اور پروفیسرز بھی آگئے۔

یونیورسٹی کے چانسلر اسٹیج پہ گئے اور کہا؛ ” آپ سب کو 74ویں یوم آزادی گلگت بلتستان مبارک باد ہو” بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ “اس مناسبت سے کل کلچرل شو کا پروگرام ہوگا۔ کلاسز کی چھٹی ہے جائیں اور پروگرام کی تیاری کریں۔” سارے اسٹوڈنٹس اسی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ ہماری کلاس کے اسٹوڈنٹس پروفیسر کے گرد جمع تھے۔ پروفیسر نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا؛ “جائیں اور کل نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت یاد کر کے آنا۔” ہم نے تنقیدی لہجے میں پروفیسر سے سوال کیا” سر جی! کلچرل شو اور نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کی تیاری؟

جی ہاں! کل پریکٹیکلی سمجھانا ہے” پروفیسر نے جواب میں یہی کہا اور چلے گیے۔
ہم سب کچھ دیر ادھر ہی انگشت بدندان رہ گئے۔ میں نے کہا: ڈئیر فرینڈز چلو اپنے اپنے گھروں کی طرف اور کل اچھی طرح تیاری کر کے آنا” قہقہوں کی گونج میں ہم سب یونیورسٹی سے گھر کی طرف چل پڑے۔ رات کو سونے ہی لگا تھا،کہ پروفیسر نے گروپ میں مسیج کیا۔ کل صبح ٹھیک نو بج کے پانچ (09:05AM) پر یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 24 پر جمع ہوجائیں۔ صبح سویرے مکمل تیاری کے ساتھ سب وہیں پہنچ گئے جہاں پروفیسر نے جمع ہونے کو کہا تھا۔ ٹھیک نو بج کے پانچ منٹ پر پروفیسر پہنچ گئے۔ پروفیسر نے پوچھا؛ “نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت یاد ہے؟” سب نے کہا جی سر! بتاو پھر! ہم نے مل کے ایک ہی آواز میں کہا؛ *”ہر عمل کا برابر مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے۔”* ایک لڑکے نے آہستہ سےکہا *every action has reaction*
ایک لڑکی اسی قانون کو سریلی انداز میں گنگنانے لگی؛

*اک جسم لگاتا ہے دوجے پہ جو اک قوت*
*دوجا بھی لگائے گا پہلے پہ وہی قوت*
*مقدار میں یکساں ہیں پر سمت مخالف ہے*
*اک ہے عمل کی ، دوجی ردِّ عمل کی قوت*

سب نے تالیاں بجاتے ہوئے اسکو داد دی اور پروگرام کی طرف چل پڑے۔ پروگرام شروع ہو چکا تھا۔ ہم گروانڈ میں جب پہنچے تو میں دنگ رہ گیا۔ جب میری نظر قوم کی ان بیٹیوں پر پڑی (جنکے والدین مزدوری کر کے اپنے پیٹ کاٹ کر انکی فیس بھرتے ہیں) انکو انڈین اور پنجابی گانوں کے دھند میں سینکڑوں جرنیل اور ھزاروں لوگوں کے سامنے نچوایا جا رہا تھا۔ انکی عزت تار تار کرائی جا رہی تھی۔ قوم کی باحیا بیٹیوں کو بے حیائی کا جام کلچرل شو کے نام پر پلایا جارہا تھا۔

اھل علم اسکو بلتستان کی لوک کہانی سے تعبیر کر رہے تھے۔

اھل ھنر عریانیت کے پھیلاؤ کو آزادی کا نام دے رہے تھے۔ اھل قلم اس لہو و لعب کو شعور کی بلندی کا نام دئیے جا رہے تھے۔ میں یہ ساری چیزیں دیکھ رہا تھا اور سوچتے ہوئے خود سے سوال کر رہا تھا۔ بلتی قوم کے اسلاف نے اپنی تعلیمی، تبلیغی، تہذیبی ، ثقافتی اور جنگی محاذ پر فتح حاصل کر کے جس قوم کو قائم کیا تھا، آج انہی کے فرزند قوم کو کس نہج پر لےجا رہے ہیں؟

اچانک پروفیسر نے میرا شانہ ہلاتے ہوئے کہا؛ کیا سوچ رہے ہو برخوردار؟” میں نے جواب دیا؛ ” سر جی کیا یہی آزاد قوم کی پہچان ہے؟ کیا یہی بلتی ثقافت ہے؟

کیا یہی بلتی لوک کہانی ہے؟ کیا یہی آزادی ہے؟”

ٹیچر نے ایک دفعہ گروانڈ کی طرف دیکھا پھر میری طرف دیکھا اور کہا؛ بیٹھ جاؤ بتاتا ہوں۔
بیٹا! نیوٹن کا قانون حرکت صرف فزکس کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ زندگی کے ھر شعبے کے ساتھ منسلک ہے۔ کیونکہ زندگی حرکت میں رہنے کا نام ہے منجمد رہنے کا نہیں۔” میں نے تعجبانہ نگاہ سے پروفیسر کو دیکھا اور پوچھا؛ “سر جی اسکا ثقافت اور یوم آزادی سے کیا تعلق؟” ھمارے اسلاف نے دشمن سے ایمان و طاقت کے ذریعے اس آزادی کو حاصل کیا ہے۔”
پروفیسر نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا؛ آپکی بات درست ہے۔ لیکن ایکشن اور ری ایکشن کا قانون جنگ کا ایک بہترین اصول ہے۔ جب ایک طرف سے ایکشن کریں تودوسری طرف سے ری ایکشن آنا ہی آنا ہے۔ لیکن ضروری نہیں ہے ری ایکشن فوراً دکھائی دے۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ دشمن اس میدان جنگ (جنگ آزادی) میں تو ہار گئے تھے۔ انکو پتہ ہے اگر اسی روش پہ لڑے تو شکست انکا مقدر ہے۔ لہذا پیچھے ہٹو اور کسی دوسرے طریقے سے حملہ کرو۔ اسی لئے دشمن نے موقع محل دیکھ کر نصف صدی گزرنے کے بعد،اب حملہ کیا ہے۔”

میں نے حیرانگی سے پوچھا؛ “سر جی! انہوں نے ری ایکشن پہلے کیوں نہیں دکھایا نصف صدی کے بعد ہی کیوں ؟
پروفیسر نے ایک آہ بھر کرجواب دیا اور کہا؛ “دشمن موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور غفلت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔” میں نے دوبارہ سوال کیا؛ سر جی! غفلت کا شکار کب ہوتا ہے؟

علم جہل میں اور مرکزِعلم مقتل میں بدلے جائیں

پروفیسر نے جواب دیا اور کہا؛ “جس دن علم جہل میں اور مرکزِعلم مقتل میں بدلے جائیں۔ جس دن علمی مراکز میں یوم حسین پہ پابندی اور عریانیت پھیلانے کےلئے کھلی چھٹی ملے، جس دن لوگ لوک کہانی کے نام پراپنی بیٹیوں کو نچوائیں، جس دن ثقافت کے نام پر فحش نگاری کا پرچار ہو، جس دن پتھر کو زبردستی صلیب قرار دیکر اپنے آثار قدیمہ کو دوسروں کے آثار قدیمہ قرار دے دیا جائے، جس دن اپنی زبان پر غیر کی زبان کو ترجیح دی جائے، جس دن قلم کی روشنائی سے دشمن کے عزائم کو پروان چڑھایا جائے۔ جس دن معاشرے میں علماء سکوت، اھل علم و ادب کے حوصلے پست ، اھل قلم کے نوک قلم کند اور اھل فکر کےافکار کہنہ ہو جائیں تب دشمن اپنا ری ایکشن دکھاتا ہے۔

لہذا کوشش کرو لوگوں کی عقلوں کے بند دریچے کھلیں۔

اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف دعوت دو ۔ یاد رکھو اسلامی تہذیب و تمدن ہی ہر درد کےلئے دوا ہے۔”
پروفیسر اٹھے اور اٹھتے ہوئے ایک جملہ کہا: *”زندگی مسلسل حرکت کا نام ہے۔ حرکت کا قانون زندگی کے ھر شعبے میں جاری ہوتا ہے یہ نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت ہے”* پروگرام ختم ہو چکا تھا۔ ٹیچر شو کے دوران بھی نیوٹن کے قانون پہ تبصرہ کر رہے تھے اور کلاس جاری ہی تھی۔

تبصرے
Loading...